بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمت میں کام مکمل کرکے وقت سے پہلے چلے جانا/ انچارج کا پیسہ لے کر عملہ کو چھٹی دے دینا


سوال

1- ہمارے ہاں اکثر  لوگ نگر نگم میں کام کرتے ہے، یہ سرکاری نوکری ہے،  اور سرکار کی طرف سے پانچ گھنٹے کی نوکری ہے،   لیکن  اگر جمادار [کام بتانے والا]یہ کہے کہ تم یہ کام کرلو اور چلے جاؤ ، حال آں کہ ابھی وقت پورا نہیں  ہوا  تو ایسا کرنا  درست ہے  جمادار کے لیے اور کام کرنےوالوں کے لیے ؟  حال آں کہ جب بھی اوپر سے آفسر جانچ کے لیے آتے ہیں تو کام کرنے والوں کو  کہہ دیا جاتا ہے کہ کل آفیسرز آئیں گے  پورا وقت دینا۔ 

2-  اگر مذکورہ صورت  میں پیسے لے کر  جمادار کرے تو جمادار اور کام کرنے والے کا کیا حکم ہے ؟

3۔  اگر بغیر  پیسے کے ہو تو کیا حکم ہے ؟

جواب

1- کسی بھی ادارے کے  ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے،  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ  خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا  تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   لہذا اگر سرکار کی طرف سے مذکورہ ملازمت کا یومیہ دورانیہ 5 گھنٹے  طے ہے تو  اتنے گھنٹے  ڈیوٹی پر حاضر رہنا ضروری ہے، اگرچہ کوئی کام نہ ہو۔

2/3۔۔ کام بتانے والے (جمادار) کا پیسہ لے کر ایسا کرنا رشوت ہے، اور رشوت لینا دینا دونوں ناجائز ہیں، اور بغیر پیسہ لے کر ایسا کرنا ادارے کے ساتھ خیانت ہے، اس لیے دونوں صورت میں یہ عمل ناجائز ہے۔

البتہ اگر سرکار کی طرف جمادار کو یہ اختیار ہو کہ جو مزدور کام کرلے اس کو چھٹی دے دو تو اس صورت میں وہ مزدور کو چھٹی دے سکتا ہے، البتہ اس پر  اس کے لیے مزدوروں سے رشوت لینا  جائز نہیں ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں