بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سردی اور گرمی میں الگ الگ شہروں میں رہائش ہو تو دونوں جگہ مقیم ہوگا اور پوری نماز پڑھے گا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام کہ ہمارے لوگوں کی رہائش دو جگہوں پر ہوتی ہے، مثلاً ہم سردی میں ڈیرہ اسماعیل خان آتے ہیں اور گرمی میں وزیرستان جاتے ہیں، یعنی تمام کے تمام گھر والے آتے جاتے ہیں تو  اگر ہمارے گھر والے ڈیرہ اسماعیل خان میں ہوں اور کوئی وزیرستان چلا جاۓ، وہاں بھی اس کی اپنی زمین گھر وغیرہ ہو تو نماز قصر کے ساتھ پڑھیں گے یا پوری نماز پڑھیں گے؟ شریعت کی روشنی سے مدلل جواب مطلوب ہے، کیوں کہ ہمارے بعض لوگ وہا ں قصر پڑھتے ہیں اور بعض پوری پڑھتے ہیں۔ قصر والے کہتے ہیں کہ یہاں ہمارے بال بچے وغیرہ نہیں ہیں۔

جواب

فقہاءِ کرام نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان کی جائے ولادت یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلی ہو۔ اس تعریف کی رو سےاگر کسی شخص کی دو یا دوسے زیادہ جگہوں پر عمر گزارنے کی نیت ہو کہ کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ، لیکن ان سے مستقل کوچ کرنے کی نیت نہ ہو تو یہ ساری جگہیں اس کے لیے  وطنِ اصلی ہی کے حکم میں ہوں گی ، چاہے کسی جگہ بال بچے موجود نہ بھی ہوں(۱)۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سائل کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جو  لوگ سردی اور گرمی کے لیے الگ الگ علاقوں میں مستقل رہائش کا انتظام کرتے ہیں، مثلاً  سردی میں ڈیرہ اسماعیل خان میں اور گرمی میں وزیرستان میں تو ایسے لوگ دونوں جگہ مقیم ہوں گے اور پوری نماز پڑھیں گے(۲)۔ فقط واللہ اعلم

حوالہ جات:

(۱)الدر : "(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه".

الرد:"(قوله أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل". (فتاوی شامی، ۲/۱۳۱، سعید)

(۲) "وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له، لايبطل أحدهما بالآخر". (البحر الرائق، ۲/۱۴۷،  دار الکتب الاسلامی) 


فتوی نمبر : 144010200095

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں