بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس، داماد، یا بہو اور سسر کے لیے ایک دوسرے کا جوٹھا کھانا کھانے کا حکم


سوال

 کیا ساس داماد کاجوٹھا کھا سکتی ہے؟ اور اسی طرح داماد ساس کا جوٹھا کھا سکتا ہے؟ کیا بہو کا جوٹھا سسر کھا سکتا ہے؟  اور اسی طرح سسر کا جوٹھا بہو کھا سکتی ہے؟

جواب

عورت کے لیے محرم مرد اور مرد کے لیے محرم عورت کا جوٹھا کھانا جائز ہے،  لہذا ساس کے لیے داماد کا ، یا داماد کے لیے ساس کا، یا بہو کے لیے سسر کا اور سسر کے لیے بہو کا بچا ہوا کھانا، کھانا یا پانی پینا جائز ہے۔  البتہ اگر ساس داماد کا،  یا داماد ساس کا ، اسی طرح سسر اپنی بہو کا، یا بہو اپنے سسر کا بچا ہوا کھانا یا پانی لذت کے حصول کرنے لیے استعمال کرے یا اس میں فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر ان کا جوٹھا مکروہ ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 221):
"(فسؤر آدمي مطلقاً) ولو جنباً أو كافراً أو امرأةً، نعم يكره سؤرها للرجل كعكسه للاستلذاذ واستعمال ريق الغير، وهو لايجوز، مجتبى. ... قيد للكل (طاهر) طهور بلا كراهة.
(قوله: أو امرأة) أي ولو حائضاً أو نفساء؛ لما روى مسلم وغيره عن «عائشة -رضي الله عنها - قالت: كنت أشرب وأنا حائض، فأناوله النبي صلى الله عليه وسلم فيضع فاه على موضع في»، بحر. (قوله: نعم يكره سؤرها إلخ) أي في الشرب لا في الطهارة، بحر. قال الرملي: ويجب تقييده بغير الزوجة والمحارم. اهـ.
وأورد بعضهم على قول البحر لا في الطهارة ما مر في الوضوء من أنه يكره التوضؤ بفضل ماء المرأة، والمراد به السؤر. أقول: المراد به الماء الذي توضأت به في خلوتها كما أوضحناه فيما مر، فتدبر (قوله: للاستلذاذ) قال شيخنا: ويستفاد منه كراهة الحلاق الأمرد إذا وجد المحلوق رأسه من اللذة ما يزيد على ما لو كان ملتحياً. اهـ. فكراهة التكبيس وغمز الرجلين واليدين من الأمرد في الحمام بالأولى ط (قوله: واستعمال ريق الغير) اعترضه أبو السعود بأنه يشمل سؤر الرجل لرجل والمرأة للمرأة فالظاهر الاقتصار على التعليل الأول كما فعل في النهر. اهـ أي؛ لأنه صلى الله عليه وسلم كان يشرب ويعطي الإناء لمن عن يمينه ويقول: " الأيمن فالأيمن "، نعم عبر في المنح بالأجنبية، وفيه نظر أيضاً. والذي يظهر أن العلة الاستلذاذ فقط، ويفهم منه أنه حيث لا استلذاذ لا كراهة ولا سيما إذا كان يعافه".

الفتاوى الهندية (1/ 23):
"وكراهة سؤر المرأة للأجنبي كسؤره لها ليس لعدم طهارته بل للاستلذاذ. كذا في النهر الفائق". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201855

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں