بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس بہو کے اختلاف میں شوہر کے لیے لائحہ عمل نیز بیوی کے لیے جدا رہائش کے مطالبے کا حکم


سوال

لوگ بیوی اور والدین کے حقوق کی بات تو بہت کرتے ہیں ،مرد بے چارہ کا کیا قصور ہے، اگر ساتھ رہے تو ساس بہو کے جھگڑے، بیوی اپنا حق جتاتی ہے کہ مجھے الگ رہنا ہے، الگ رہے تو دونوں گھروں کے کام کرتے کرتے مرد ختم ہوجائے، سوال یہ ہے کن حالات میں شوہر لازماً اپنے والدین کے ساتھ رہے اور کن حالات میں لازماً الگ ہوجائے؟ کیا بیوی شوہر سے الگ گھر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

اگربیوی کے مطالبہ پر اسے الگ گھر دینا شوہر کی ذمہ داری ہے ، تومیرا آپ سے سوال یہ ہے کہ :

1: اسلام میں مردکوحاکم بنایاگیاہے،اوررخصتی لڑکی کی ہوتی ہے نہ کہ لڑکے کی،پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ لڑکاشادی کے بعد اپنی بیوی کے کہنے پررخصت ہوجائے؟ نیزاگرلڑکاماں باپ سے محبت کرتاہواوران سے الگ رہنابالکل نہ چاہتاہوتوکیااسلام ہمیں یہ حکم دیتاہے کہ ہم اپنے ماں باپ کوبیوی کے مطالبے پراپنی نظروں سے دورکردیں؟

2:دوسری بات یہ ہے کہ آج کل توگھربہت مہنگے ہیں،اوربہت کم لوگ ہیں جوالگ گھرلے سکتے ہیں،جب کہ اسلام توجلدی شادی کاحکم دیتاہے، اورگھربنانے میں توپوری زندگی لگ جاتی ہے،پھرکیالڑکاچالیس سال کی عمرمیں شادی کرے گا؟

بہشتی زیورمیں یہ مسئلہ لکھاہے کہ: اگرشوہربیوی کے لیے ایک کمرہ علیحدہ کردے جس کادروازہ ہواورعورت اس کواندرسے بندکرسکتی ہو ،توالگ گھرکامطالبہ پوراہوگیااب بیوی مزیدمطالبہ نہیں کرسکتی،اوریہ نہیں کہہ سکتی کہ پوراگھرمیرے لیے الگ کرو۔

 

جواب

واضح رہے کہ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کے رشتے قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھائے جائیں تو یہ رشتے کامیاب رہتے ہیں ،اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا  خندہ پیشانی سے استقبال کرے اورشوہر کے والدین کی خدمت کرے ،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت بیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں۔اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

تاہم  اگربیوی میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ اپنی رائے کوساس کے سامنے مٹادے توشرعاً  اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے،  ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روز انہ کی  اذیت سے بہتر یہ ہے کہ  الگ رہائش اختیار کرلیں، لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو، بلکہ نیت یہ ہو کہ ساتھ رہ کہ والدین کو جو اذیت ہم سے پہنچتی ہے اور جو بے ادبی ہوتی ہے اس سے بچ جائیں، غرض خود کو قصوروارسمجھ کر الگ ہونا چاہیے والدین کو قصوروار ٹھہرا کر نہیں۔ اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے۔

بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست ایک علیحدہ معاملہ ہے اور والدین کے ساتھ محبت کا اظہار اور ان کے ساتھ تعلق  اور میل جول رکھنا ایک علیحدہ معاملہ ہے،  اولاد کے دل میں والدین کی محبت ہونی ہی چاہیے اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض بھی ہے۔ شوہر بیک وقت دونوں امور کو بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے۔ بیوی کو علیحدہ رہائش دینے سے یہ نتیجہ کہاں نکلتا ہے کہ والدین کی محبت میں یا ان کے ساتھ میل جول میں کسی طرح بھی کمی کرے!!  نہ ہی بیوی کی الگ رہائش کا یہ مطلب ہے کہ والدین کو چھوڑ کر ہر وقت بیوی کے پاس موجود رہے، جیسے اپنے کاروبار اور ضروریات کے لیے انسان دن بھر گھر سے باہر رہتاہے، اسی طرح والدین کی خدمت ، ان سے میل جول، ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے، یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ جو ناممکن  یا بہت مشکل ہو،  اللہ تعالی نے انسان کو اسی نظام سے منسلک پیدا کیا ہے ، اور اسی دنیا میں انہیں تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس نے کامیاب زندگی گزارنی ہے، بیوی کا مطالبہ بھی اپنی بساط کے مطابق پورا کرے اور والدین کے ساتھ میل جول بھی بیک وقت برقرار رکھے، دونوں باتیں، گو کہ ہمت اور شخصی استقلال چاہتی ہیں، لیکن  یہ مشکل یا ناممکن نہیں ہیں۔

مذکورہ تفصیل اور اسلامی احکام وحقوق کاحسن، توازن اور اعتدال سامنے رکھتے ہوئے بادی النظر میں ہی یہ بات غلط ہے کہ:مرد کو اللہ نے حاکم بنایاہے اور رخصتی تولڑکی کی ہوتی ہے نہ کہ مرد کی، پھر بیوی کے مطالبے پر مرد رخصت ہوکر والدین سے جدا ہوجائے۔ 

جہاں تک علیحدہ رہائش فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے توشریعت نے اس  معاملہ میں شوہر کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے یا شوہر استطاعت رکھتاہے لیکن بیوی متوسط یا عام خاندان سے تعلق رکھتی ہے توگھرمیں سے ایک ایسا جدا مستقل کمرہ جس  کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کوکافی ہوجائے ،جس میں وہ اپنامال واسباب تالالگاکررکھ سکے، کسی اورکی اس میں دخل اندازی نہ ہو،  ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

اوراگرشوہرزیادہ  مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے  اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا، لیکن شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر درمیانے درجے کے گھر کا انتظام لازم ہوگا۔

جدا رہائش (خواہ  علیحدہ  کمرے کی صورت میں ہو یا جدا مکان)  مالکانہ حقوق کے ساتھ دینا بھی شوہر کے ذمہ لازم نہیں ہے، بلکہ اگرشوہر نے کرائے یاعاریت کے مکان میں بھی یہ سہولیات بہم پہنچادیں تو  عورت مزید مطالبہ نہیں کرسکتی،نیزشوہرجہاں بھی مناسب انتظام کردے عورت کے حق کی ادائیگی ہوجائے گی کسی خاص علاقے یا خاص معیار کے گھر کے مطالبے کا بیوی کو حق نہیں ہوگا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ اسلام نے شادی کے سلسلہ میں وسعت سے زیادہ ذمہ داری مردپرنہیں ڈالی اورنہ ہی نکاح کومشکل بنایاہے۔

لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ شوہر ساری زندگی کماتارہے گا تو شادی کب کرے گا؟ جب کہ اسلام میں مردکوجلدشادی کرنے کاحکم دیاگیاہے؟  اس لیے کہ اسلام میں جلد شادی کا حکم اسی صورت میں دیا گیا ہے جب وہ بیوی کے نان نفقے اور حقوق کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی استطاعت رکھتاہو۔اورنفقہ ہی کاایک جزبیوی کورہائش دینابھی ہے۔شریعت کاحکم یہ ہے کہ اگربیوی ،شوہرکے والدین کے ساتھ  رہنے پرراضی ہوتوٹھیک ہے، اوراگروہ الگ رہناچاہے توشوہراسے ساتھ رہنے پرمجبورنہیں کرسکتا۔تمام فقہاء کرام اس بات پرمتفق ہیں کہ جدارہائش بیوی کاحق ہے جسے ختم نہیں کیاجاسکتا۔

بہشتی زیور کی جس عبارت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ مسئلہ عمومی احوال کے اعتبار سے لکھا گیا ہے جوبالکل درست ہے، اس کی مکمل عبارت درج ذیل ہے:

' گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے توبس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کادعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو۔ (بہشتی زیور، رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

بہشتی زیور کی اس عبارت سے یہی معلوم ہورہاہے کہ عورت کو ایسی الگ مستقل رہائش کے مطالبے کا حق ہے جہاں وہ اپنا  مال واسباب رکھ سکے اس  رہائش میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو۔ عموماً شوہر اتنا مال دار نہیں ہوتا کہ علیحدہ گھر کا انتظام کرے،  اس لیے عمومی احوال کے اعتبار سے عورت کا یہی حق ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ نیزحضرت تھانوی رحمہ اللہ نے "بہشتی زیور "بنیادی طورپر خواتین کے لیے لکھی ہے، اور اس میں خصوصیت کے ساتھ شوہر کی اطاعت، خانگی مسائل اور سسرال وغیرہ کے حقوق کی تاکید فرمائی ہے، موضوع اور موقع کا تقاضا بھی یہی ہے عمومی احوال میں خواتین کا جتنا حق ہے وہ  بتادیاجائے اور انہیں زیادہ مطالبے اور شوہر کو پریشان کرنے سے رکنے کی نصیحت کی جائے۔

البتہ اگر شوہر کی مالی حیثیت بھی بہت اچھی ہو اور بیوی بھی شریف اوراعلیٰ خاندان کی ہو توشریعت نے ان خصوصی احوال کا بھی لحاظ کیا ہے، فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ: ان احوال میں بیوی مطالبہ کرے تو شوہر کے ذمہ اپنی حیثیت کے مطابق درمیانے درجے کے الگ گھر کا انتظام لازم ہوگا، بیوی کو بہت اعلیٰ معیار کے مکان کے مطالبے کا حق نہیں ہوگا۔جیساکہ "فتاویٰ شامی"(جلد:3،صفحہ:600،601،مطبوعہ :ایچ ایم سعید )میں اس کی وضاحت موجود ہے۔

 حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے مستند فتاوی "امدادالفتاوی" میں اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جوکچھ لکھا ہے، اس میں سے چند حوالے سائل کے مزید اطمینان کے لیے درج کیے جاتےہیں:

"سوال: (628) جناب نے ایک روز وعظ میں حقوق زوجین کے متعلق فرمایاتھاکہ زوجہ کا ایک یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ خاوند کے والدین سے علیحدہ رہنا چاہے تواس کا منشا پورا کردینا واجب ہے اس کے ساتھ گزارش ہے کہ کلام مجید میں خدواندکریم کا یہ حکم ہے کہ سوائے شرک کے اورتمام امور میں والدین کا حکم مانو تویہ فرض ہوا، اب قابل دریافت یہ امرہے کہ والدین کی اگرمرضی نہیں ہے کہ بیوی کو ان سے علیحدہ رکھاجاوے اور زوجہ کی یہ مرضی ہے کہ ان سے علیحدہ رہے خواہ ایک ہی مکان میں ہو یاعلیحدہ مکان میں توکس طرح کرناچاہیے؟ اور اس کی بابت کیاحکم ہے؟ آیا پہلے فرض ادا کیاجائے یاواجب؟ براہ نوازش اس کی بابت مفصل تحریرفرماویں تاکہ آسانی سے سمجھ میں آجاوے۔

الجواب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

والدین کی اطاعت ترک واجب میں نہیں اور عورت کے یہ حقوق واجب ہیں، پس اگروالدین ان کے ترک کوکہیں توان کی اطاعت نہیں۔" (امدادالفتاوی، 2/526)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

'چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں'۔(امدادالفتاویٰ،2/525)

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’مردکے ذمہ واجب ہے کہ عورت کوایک مکان علیحدہ رہنے کے لیے دےکہ اس مکان میں شوہرکے ماں باپ بہن بھائی وغیرہ نہ رہتے ہوں،بلکہ وہ پورابیوی کے قبضہ وتصرف میں ہو،اورمکان سے مرادایک کمرہ یاکوٹھاہے جس کوعربی میں’’بیت‘‘کہتے ہیں ،لہذااگرصحن وغیر ہ مشترک ہوجس کوشوہرکے دوسرے عزیزبھی استعمال کرتے ہوں اوربیوی بھی تواس کومطالبے کاحق نہیں کہ میراصحن بھی مستقل ہوناچاہیے،اس میں بھی کسی کی شرکت نہ ہو۔یہ اس وقت ہے جب کہ شوہراوربیوی دونوں زیادہ مالدارنہ ہوں،بلکہ متوسط درجے کے ہوں،اگرمالدارہوں اورشوہرمیں اس قدراستطاعت ہوکہ کوئی مستقل گھرعلیحدہ بیوی کودے سکتاہے ،خواہ خریدکر،خواہ کرایہ پر،خواہ عاریت پرجس کاصحن وغیرہ بھی علیحدہ ہو جس کوعربی میں ’’دار‘‘کہتے ہیں،توعورت کواس مطالبے کاحق حاصل ہے۔"

(فتاویٰ محمودیہ،13/،448،447،ط:جامعہ فاروقیہ کراچی)

اسی نوعیت کے ایک مسئلہ سے متعلق حکیم العصرحضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے:

'بیوی کوعلیحدہ جگہ میں رکھنا(خواہ اسی مکان کاایک حصہ ہو،جس میں اس کے سوادوسرے کاعمل دخل نہ ہو)شوہرکے ذمے شرعاً واجب ہے،بیوی اگرخوشی سے شوہرکے والدین کے ساتھ رہناچاہے اوران کی خدمت کواپنی سعادت سمجھے توٹھیک ہے،لیکن اگروہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہوتواسے والدین کے ساتھ رہنے پرمجبورنہ کیاجائے،بلکہ اس کی جائزخواہش کاجواس کا شرعی حق ہے ،احترام کیاجائے.....والدین کی خوشی کے لیے بیوی کی حق تلفی کرناجائزنہیں۔قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کامطالبہ ہوگااورجس نے ذرابھی کسی پرزیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کواس سے بدلہ دلایاجائے گا۔بہت سے وہ لوگ جویہاں اپنے کوحق پرسمجھتے ہیں ،وہاں جاکران پرکھلے گاکہ وہ حق پرنہیں تھے،اپنی خواہش اورچاہت پرچلنادین داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پرچلنادین داری ہے'۔

(آپ کے مسائل اوران کاحل،والدین اوراولادکے تعلقات،والدین کی خوشی پربیوی کی حق تلفی ناجائزہے،جلد:8،صفحہ:572،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی)

ان شاء اللہ تعالیٰ اس قدر تفصیل تشفی کے لیے کافی ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143509200063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں