بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساری زندگی جمعرات جمعہ کا روزہ رکھنے کی منت مانگی


سوال

عورت نے منت مانی ہے کہ اگر میری بیمار بیٹی ٹھیک ہو گئی تو میں ساری زندگی جمعرات جمعہ کا روزہ رکھوں گی۔ کچھ عرصہ روزے رکھے، اب ہمت نہیں۔ عورت  غریب ہے اور کام کرتی  ہے۔ کیا اس صورت میں وہ عورت کفارہ یمین دے سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نذر کے لیے زبان سے تلفظ ضروری ہے، لہٰذا اگر زبان سے مذکورہ نذر کا تلفظ کیا تھا تو صورتِ مسئولہ میں نذر ماننے سے نذر ہوگئی ہے ، لہٰذااگر مذکورہ عورت کی بیٹی  تندرست ہو گئی ہے تو موت تک ہر  جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھنا   ہی ضروری  ہے قسم کا کفارہ نہیں دے سکتی، اگر کبھی عذر کی وجہ سے بھی روزہ رہ جائے تو اس کی دوسرے دنوں میں قضا کرنا لازم ہے، اگر بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے مذکورہ عورت لاچار ہوجائے اور روزہ رکھنے کی طاقت نہ رہے تب ہر روزے  کے  بدلے کسی محتاج کو صدقہِٴ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے سکتی ہے۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل  ۴/ ۶۱۵ مکتبہ لدھیانوی)

اور اگر مذکورہ عورت نہ روزہ رکھنے پر قادر ہے اور نہ ہی فدیہ ادا کرسکتی ہے تو  اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرے کہ وہ  اس کی کوتاہی کو اپنی رحمت سے معاف کر دے۔  (مستفاد: کفایت المفتی ۲/ ۲۵۴ ط: دار الاشاعت )

لیکن اگر صرف نیت کی تھی اور زبان سے مذکورہ الفاظ ادا نہ کیے تھے تو نذر نہیں ہوئی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 735):

’’(ومن نذر نذراً مطلقاً أو معلقاً بشرط وكان من جنسه واجب) أي فرض كما سيصرح به تبعاً للبحر والدرر (وهو عبادة مقصودة) خرج الوضوء وتكفين الميت (ووجد الشرط) المعلق به (لزم الناذر)؛ لحديث: «من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى» (كصوم ...‘‘ الخ

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 741):

’’(نذر صوم شهر معين لزمه متتابعاً لكن إن أفطر) فيه (يوماً قضاه) وحده وإن قال متتابعاً (بلا لزوم استقبال)؛ لأنه معين ولو نذر صوم الأبد فأكل لعذر فدى

(قوله: وإن قال متتابعاً) ... لو أفطر يوماً ولو من الأيام المنهية كما مر في الصوم ... (قوله: فدى) أي لكل يوم نصف صاع من بر أو صاعاً من شعير وإن لم يقدر استغفر الله تعالى‘‘.

الفتاوى الهندية (1/ 209):

’’إذا نذر أن يصوم كل خميس يأتي عليه فأفطر خميساً واحداً فعليه قضاؤه، كذا في المحيط.

ولو أخر القضاء حتى صار شيخاً فانياً أو كان النذر بصيام الأبد فعجز لذلك أو باشتغاله بالمعيشة لكون صناعته شاقةً فله أن يفطر ويطعم لكل يوم مسكيناً على ما تقدم، وإن لم يقدر على ذلك لعسرته يستغفر الله إنه هو الغفور الرحيم‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 738):

’’( إن) المعلق فيه تفصيل فإن (علقه بشرط يريده كأن قدم غائبي) أو شفي مريضي (يوفي) وجوباً (إن وجد) الشرط‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 739):

’’نظيره الصوم في حق الشيخ الفاني معصية لإفضائه إلى إهلاكه، وصح نذره بالصوم وعليه الفدية، وجعل ذلك التزاماً للفدية‘‘.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 427) كتاب الصوم،فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم ،الناشر:دار الفكر-بيروت:

’’(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوباً ... هذا إذا كان الصوم أصلاً بنفسه وخوطب بأدائه، حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية‘‘.

(قوله: هذا) أي وجوب الفدية على الشيخ الفاني ونحوه (قوله: أصلاً بنفسه) كرمضان وقضائه والنذر كما مر فيمن نذر صوم الأبد، وكذا لو نذر صوماً معيناً فلم يصم حتى صار فانياً جازت له الفدية، بحر‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں