بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سابقہ طلاق کی خبر کی تحریر لکھنا


سوال

میرے شوہر نے اپنی پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اس سے خفیہ رکھتے ہوئے مجھ سے شادی کی،شادی کے کچھ عرصہ بعد خبر پہلی بیوی تک پہنچ گئی، اس نے بہت لڑائی جھگڑا کیا، اور دوسری بیوی کو طلاق دینے کی ضد لگالی، پہلی بیوی نے اسلامیات میں ایم فل کیاہے اور اب پی ایچ ڈی کررہی ہے، ایک دن وہ اسٹامپ پیپر پر اپنی مرضی کی تحریرلکھوالائی،جس میں ایک طلاق کا ذکر تھا،ساتھ ہی اس نے کہاکہ سائن کرنے سے طلا ق نہ ہوگی، جب تک کہ دوسری بیوی کو یہ کاغذات نہ پہنچائے جائیں،شوہر  نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے اور ا س بات پر اعتماد کرکے سائن کردیے، بعد میں   معلوم ہواکہ اس طرح طلاق ہوجاتی ہے،شوہر نے دوسری بیوی سے رجوع کرلیا،ایک مہینے کے بعد پہلی بیوی نے وہی رٹ لگالی کہ دوسری طلاق بھی دو،شوہر نے پہلی والی طلاق کی خبر کی نیت سے ماضی کے زمانے  کی تحریر لکھوائی  کہ میں نے فلاں کو طلاق دی اور اس پر دو گواہ بھی بنالیےجو یہ جانتے ہیں کہ یہ تحریرصرف پہلی والی طلاق کی خبر ہے، دوسری طلا ق نہیں ہے، شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی،نیز ایک مہینہ گزرنے کے بعد تیسری طلاق کے لیے بھی اسی طرح ترتیب بنائی کہ سابقہ طلا ق کی خبر ہے اور اس پر دو گواہ بھی بنائے۔کیا اس طرح طلاق ہوجاتی ہے؟

جواب

اگر واقعۃً مذکورہ شخص کا منشا صرف ایک طلاق دینے کاہی تھا، اور ایک طلاق کے بعد اس نے رجوع کرلیاتھا اور بعد میں اس نے جو دوتحریریں لکھوائی تھیں ان سے مقصود  اسی پہلی طلاق کی خبر دینا تھااور اس  پر گواہ قائم کرلیے ہیں کہ پچھلی طلاق کی خبر دینامقصود ہے تو ایسی صورت میں  مذکورہ  شخص کی  بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے، اورعدت کے اندر اندررجوع کرنے سے نکاح برقرار ہے، مزید دو طلاقیں واقع نہیں ہوئیں۔’’البحرالرائق‘‘ میں ہے:

’’وصرح في البزازية بأن له في الديانة إمساكها إذا قال: أردت به الخبر عن الماضي كذباً، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاءً وديانةً‘‘‘. (9/137)

فتاوی شامی میں ہے:

’’وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلاً أو كاذباً، فقال في البحر: إن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانةً، ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذباً لا يقع ديانةً، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاءً أيضاً اهـ‘‘.(3/238)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں