بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکوۃ کی رقم ایک فرد کو دینا افضل ہے یا متعدد اشخاص میں تقسیم کرنا افضل ہے؟


سوال

زکات  کی رقم کسی ایک فرد کودی جاسکتی ہے یا زیادہ میں بانٹنا مستحسن ہے؟

جواب

زکات دینے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو ایک ہی مستحق فرد کو اپنی زکات  کی پوری رقم دے دے یا زکات  کی رقم کو متعدد مستحقِ زکات غریبوں میں تقسیم کردے، دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ کسی ایک مستحق کو زکات کی اتنی رقم دینا کہ وہ خود صاحبِ نصاب بن جائے مکروہ ہے، (بشرطیکہ مستحق پر نصاب سے زیادہ قرض نہ ہو۔) لیکن بہرحال کسی مستحق کو یک مشت اتنی رقم دینے سے بھی زکات ادا ہوجاتی ہے۔

باقی افضلیت کا فیصلہ حالات اور اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، مثلاً اگر ایک آدمی کی ضرورت زیادہ ہے اہل و عیال کے خرچے زیادہ ہونے کی وجہ سے یا قرض دار ہونے کی وجہ سے اور زکات  کی پوری رقم اس کی ضرورت میں ہی صرف ہوجائے گی تو اس ایک آدمی کو ہی زکات  کی پوری رقم دینا افضل ہوگا؛  تاکہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے، لیکن اگر زکات  کی پوری رقم ایک شخص کی ضرورت سے زائد ہے تو پھر زکات  کی رقم کو متعدد افراد میں تقسیم کرنا افضل ہوگا؛  تاکہ معتدد افراد کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 188):

"فهذه جهات الزكاة، وللمالك أن يدفع إلى كل واحد، وله أن يقتصر على صنف واحد، كذا في الهداية. وله أن يقتصر على شخص واحد، كذا في فتح القدير. والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصاباً، كذا في الزاهدي. ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعداً، وإن دفعه جاز، كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديوناً فإن كان مديوناً فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لايبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلاً جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين، كذا في فتاوى قاضي خان. وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم، كذا في التبيين".


فتوی نمبر : 144008200612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں