بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ میں کتنی مقدار لازم ہے ؟


سوال

کل مال میں سےاڑھائی فیصد(چالیسواں حصہ) فرض ہونا کیاکسی حدیث میں اس اڑھائی فیصد یاچالیسویں حصے کی تعیین آئی ہے؟

جواب

زکاۃ کی فرضیت قرآن کریم کی بے شمار آیات سے ثابت ہے ، البتہ زکاۃ کے تفصیلی احکام وضوابط نیز زکاۃ کی مقدار احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے۔نقود اور کرنسی میں زکاۃ کی مقدار احادیث میں جو بیان کی گئی ہے وہ چالیسواں حصہ (اڑھائی فی صد) ہی ہے، لہٰذا صاحبِ نصاب ہونے پر اپنے اموال میں سے چالیسواں حصہ زکاۃ میں نکالنا واجب ہے ،چنانچہ ترمذی وابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهماً درهم، وليس فى تسعين ومائة شىء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم".

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  میں نے گھوڑوں اور لونڈی و غلام کی زکاۃ معاف کر دی (یعنی یہ تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں )پس چاندی کی زکاۃ دو  ہر چالیس درہم پر ایک درہم (لیکن خیال رہے )ایک سو نوے درہم میں زکاۃ نہیں ہے، جب دو سو درہم پورے ہوں گے تب زکاۃ واجب ہوگی اور زکاۃ میں پانچ درہم دینے ہوں گے ۔(سنن الترمذی،باب زکاۃ الذھب والفضۃ،3/16بیروت-سنن ابی داؤد،باب فی زکوۃ السائمۃ2/11)

یہ نصاب  سونا چاندی، نقد رقم اور اموال تجارت کے بارے میں ہے ،البتہ جانوروں کا نصاب مختلف ہے جس کی تفصیل احادیث وفقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں