بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم سے مدرسہ کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنا


سوال

 کیا زکاۃ  کی مد سے مدرسوں کی دیگر  لائبریری کے لیے کتب خریدی جاسکتی ہیں؟جن سے طلبہ  واساتذہ دونوں ہی فائدہ اٹھاتے ہیں؟

جواب

زکاۃ  ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مسلمان مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے، لائبریری کے لیے کتاب خریدنے میں چوں کہ تملیک نہیں پائی جاتی ہے ، اس لیے زکاۃ  کی رقم اس میں استعمال نہیں کی جاسکتی، اس سے زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ  ادا نہیں ہوگی، ہاں اگر زکاۃ  کی رقم سے کتابیں خرید کر مستحقِ زکاۃ  طالب علم کو مالک بناکر دی جائیں تو یہ جائز ہے، اس سے زکاۃ  ادا ہوجائے گی۔"فتاوی عالمگیری"  میں ہے:

" لايجوز أن يبنی بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولايجوز أن يكفن بها ميت، ولايقضى بها دين الميت، كذا في التبيين".   (1/ 188،  کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں