بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے سڑکوں کی مرمت سے متعلق ”کتاب الخراج“ کی ایک عبارت کی وضاحت


سوال

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ”کتاب الخراج‘‘  میں ایک عبارت ہے :

" من يسْتَحق مَال الصَّدقَات:

”فَيُقَسَّمُ ذَلِكَ أَجْمَعُ لِمَنْ سَمَّى اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَى نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [التَّوْبَة: 60] ؛ فَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ قَدْ ذَهَبُوا وَالْعَامِلُونَ عَلَيْهَا يُعْطِيهِمُ الْإِمَامُ مَا يَكْفِيهِمْ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنَ الثُّمُنِ أَوْ أَكْثَرَ أُعْطِيَ الْوَالِي مِنْهَا مَا يَسَعُهُ وَيَسَعُ عُمَّالَهُ مِنْ غَيْرِ سَرَفٍ وَلا تَقْتِيرٍ، وَقُسِّمَتْ بَقِيَّةُ الصَّدَقَاتِ بَيْنَهُمْ؛ فَلِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ سَهْمٌ، وَلِلْغَارِمِينَ -وَهُمُ الَّذِينَ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى قَضَاءِ دُيُونِهِمْ- سَهْمٌ، وَفِي أَبْنَاءِ السَّبِيلِ الْمُنْقَطِعِ بِهِمْ سَهْمٌ يُحْمَلُونَ بِهِ وَيُعَانُونَ، وَفِي الرِّقَابِ سَهْمٌ، وَفِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ الرَّجُلُ الْمَمْلُوكِ أَوْ أَبٌ مَمْلُوكٌ أَوْ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ أَوْ أُمٌّ أَوِ ابْنَةٌ أَوْ زَوْجَةٌ أَوْ جَدٌّ أَوْ جَدَّةٌ أَوْ عَمٌّ أَوْ عَمَّةٌ أَوْ خَالٌ أَوْ خَالَةٌ وَمَا أَشْبَهَ هَؤُلاءِ فَيُعَانُ هَذَا فِي شِرَاء هَذَانِ وَيُعَانُ مِنْهُ الْمُكَاتَبُونَ، وَسَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذَا يَخْرُجُ بَعْدَ إِخْرَاجِ أَرْزَاقِ الْعَامِلِينَ عَلَيْهَا، وَيُقَسَّمُ سَهْمُ الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ مِنْ صَدَقَةِ مَا حَوْلَ كُلِّ مَدِينَةٍ فِي أَهْلِهَا وَلايَخْرُجُ مِنْهَا فَيُتَصَدَّقُ بِهِ عَلَى أَهْلِ مَدِينَةٍ أُخْرَى، وَأَمَّا غَيْرُهُ فَيَصْنَعُ بِهِ الْإِمَامُ مَا أَحَبَّ مِنْ هَذِهِ الْوُجُوهِ الَّتِي سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ وَإِنْ صَيَّرَهَا فِي صِنْفٍ وَاحِدٍ مِمَّنْ سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى ذكره أَجْزَأَ". (کتاب الخراج ، صفحہ 81 ، ط دارالمعرفۃ ، بیروت)

اس میں جملہ ”سَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ“  کا کیا ترجمہ اور مفہوم ہے ۔ کتاب الخراج کے دو اردو تراجم میں اس کا ترجمہ "ایک حصہ مسلمانوں کی سڑکوں کی مرمت کے لیے رکھا جائے گا" کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمادیں!

جواب

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ”کتاب الخراج“ کی مذکورہ عبارت میں اس جملے ”سَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ“  کا ترجمہ مذکورہ تراجم میں جو کیا گیا ہے وہ درست ہے کہ ”ایک حصہ مسلمانوں کی سڑکوں کی مرمت کے لیے رکھا جائے گا" یعنی جیسے راستہ وغیرہ میں چٹان یا پتھر وغیرہ ہو ان کو کاٹ کرراستہ بنانے کے اخراجات، اسی طرح پل وغیرہ بنانے کے لیےیہ رقم مختص ہوگی۔

لیکن اس بارے میں وضاحت یہ ہے کہ : یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ایک قول تھا، بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا، یہی وجہ ہے کہ فقہاءِ احناف کے متون،شروح اور فتاوی کسی میں بھی اس قول کو نقل نہیں کیا گیا، اس کی وضاحت ”علامہ عبد العزیز بن محمد الرحبی الحنفی (المتوفی 1184ھ) اپنی کتاب الخراج کی شرح ”فقه الملوک ومفتاح الرتاج المرصد علی خزانة کتاب الرتاج“  میں  تحریر فرماتے ہیں:

" مصنف رحمہ اللہ (امام ابویوسف )نے اس حصے سے وہ حصہ مراد لیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”وفی سبیل اللہ“ میں ہے، اور انہوں نے "سبیل" کو حقیقی معنی پر محمول کیا ہے اور وہ راستہ ہے، تو انہوں نے اسے بھی زکات اور صدقاتِ واجبہ کے مصارف میں شمار کردیا، پھر بعد میں اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ، اس لیے کہ فقہاء نے متون اور شروح میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ”وفی سبیل اللہ“ سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مجاہدین فقراء مراد ہیں،اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک حج کے سفر کرنے والے فقراء  مراد ہیں، جب کہ مصالحِ مسلمین جس میں راستوں کی اصلاح بھی شامل ہے اور پل کی تعمیر ات وغیرہ میں زکات کی رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں زکات کا رکن ”تملیک“ کا معنی نہیں پایا جاتا،  بلکہ ان پر جزیہ، خراج، اہلِ حرب کے ہدایا وغیرہ سے خرچ کیا جائے گا۔ ملاحظہ ہو:

"(وسهم) منها يصرف (في اصلاح طرق المسلمين) كقطع الصخور التي لاتسلك الطرق معها إلا بمشقة، وبناء القناطر ونصب الجسور ...

تنبيه: الظاهر أن المولف رحمه الله أراد بهذا السهم هنا السهم المذكور في قوله تعالى:"وفي سبيل الله" وحمل السبيل علي معناه الحقيقي، وهو الطريق، فجعله المصرف، ثم رجع عنه، لما ذكره الفقهاء في المتون والشروح  أن المراد بقوله تعالى: "وفي سبيل الله" فقراء منقطعي الغزاة  عند أبي يوسف ، وفقراء منقطعي الحاج عند محمد  رحمهما الله ، وأن مصالح المسلمين، ومنها إصلاح الطرق، وبناء القناطر والجسور، لايجوز صرف الزكاة فيها لانعدام ركنها وهو التمليك، وإنما يصرف عليها من مال الجزية والخراج وهدايا أهل الحرب وما صالحونا به على ترك قتالهم وما أشبه ذلك، لأنه ماخوذ بقوة المسلمين فيصرف في مصالحهم".(1/544، ط: مطبعۃ الارشاد، بغداد، 1473) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں