بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کی رقم بینک میں جمع کرکے مستحق کو گاڑی لے کر دینا / زکاۃ کی رقم کو الگ کرنا


سوال

1۔۔ زکاۃکے پیسوں کو بینک میں جمع کرکے کسی غریب کے لیے گاڑی وغیرہ لےسکتے ہیں؟

2۔۔ زکاۃکےپیسوں کو اپنے پیسوں سے الگ کرنا ضروری ہے؟

جواب

1۔۔  بینک میں رقم جمع کرکے گاڑی لینے کا اگر یہ مطلب ہو کہ بینک سے مروجہ لینزنگ کے ذریعہ گاڑی لے کردیں تو  بینک سے یہ معاملہ ناجائز ہے، اگر یہ مطلب ہو کہ سیونگ اکاؤنٹ میں پیسے رکھ کر اس میں اضافہ کرکے گاڑی لے دیں تو یہ بھی ناجائز اور حرام ہے۔  اگر کوئی اور صورت ہے تو اس کو واضح کرکے لکھیں اس کے بعد دوبارہ جواب معلوم کرلیں۔

2۔۔ سال مکمل ہونے کے بعد  قابلِ زکاۃ اموال کا حساب وکتاب کرکے  اسی دن واجب الادا زکاۃ کی رقم الگ کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مختلف اوقات میں تھوڑی تھوڑی رقم نکالتا رہے تو اس کی گنجائش ہے،  لیکن اگر رقم الگ  کردے تو بہتر ہے ، اس لیے کہ  نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ زکاۃ مال کا میل ہے، مشکاۃ المصابیح میں ہے:”عبد المطلب بن ربیعہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا  : بلاشبہ یہ زکاۃ لوگوں کے مالوں کا میل ہے۔“ (مشکاۃ، 1/161، قدیمی)

 اللہ تعالیٰ نے اسی میل سے مالوں کو پاک صاف کرنے کے لیے فرمایا : ﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا﴾ (سورۂ توبہ 103)   ترجمہ: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ (جس کو یہ لائے ہیں) لیجیے جس کے  (لینے کے) ذریعہ سے آپ ان کو (گناہ کے آثار سے) پاک کردیں گے ۔ (از بیان القرآن )

اسی طرح سنن ابی داؤد میں ایک حدیث ہے: اللہ تعالیٰ نے زکاۃ اس لیے فرض کی ہے تاکہ بقیہ مالوں کو پاک صاف کرے۔ (ابوداؤد، 1/241، رحمانیہ)

یعنی جب صاحبِ نصاب آدمی کے نصاب کے مال پر ایک سال  کی مدت گزرجاتی ہےتو اس کے مال کا میل نکل کر اوپر آجاتا ہے، اگر وہ زکاۃ ادا کردیتا ہے تو وہ میل اور گند سے پاک ہوجاتا ہے ، اگر زکاۃ ادا نہیں کرتا تو وہ میل دوبارہ اس مال میں شامل ہوجاتا ہے اور پورا مال خراب ہوجاتا ہے اور پھر وہ مال طرح طرح کی ناگہانی اور غیر متوقع آفتوں میں خرچ ہوکر ضائع ہوجاتا ہے۔

بدائع الصنائع  (2/ 3) :
'' وذكر أبو عبد الله الثلجي عن أصحابنا أنها تجب وجوباً موسعاً، وقال عامة مشايخنا: إنها على سبيل التراخي، ومعنى التراخي عندهم أنها تجب مطلقاً عن الوقت غير عين ففي أي وقت أدى يكون مؤدياً للواجب، ويتعين ذلك الوقت للوجوب''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں