بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بڑی مقدارمیں قرض لی ہوئی رقم پر زکاۃ ہوگی یا نہیں؟


سوال

درج ذیل صورتِ حال پر زکاۃ  کیا بنتی ہے. زکاۃ  اکتوبر 2018تک ادا کی جا چکی ہے.

پندرہ لاکھ مالیت کا بغیر سود قرضہ لیا گیا ہے جومئی2019 میں لیاگیا ہے. قرض تیرہ سال میں قسطوں میں ماہانہ ادا کرنا ہے. قرض کی رقم اکتوبر 2019سے پہلے خرچ کر دی جائے گی،  قرض کی رقم ذاتی استعمال پلاٹ یا گھر یا گاڑی پر خرچ کی جائے گی۔  آیا قرض کی اس رقم کی زکاۃ ادا کرنا ہو گی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو کتنی ادا کی جائے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں  آپ اگر پہلے سے صاحبِ نصاب ہیں تو جب آپ کے قابل زکاۃ اموال  کی زکاۃ  نکالنے کی تاریخ آجائے تو آپ اس وقت اپنے پاس موجود نقدی ، سونا، چاندی، اور مالِ تجارت وغیرہ کی مالیت دیکھ لیں، اور اس میں سے زکاۃ  کی ادائیگی کی تاریخ تک اپنے اوپر واجب الادا اخراجات (مثلاً بل وغیرہ اور زکاۃ کے سال کے دوران قرض کی واجب الادا قسطوں) کو اس میں سے منہا کرلیں، اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس کا چالیسواں حصہ زکاۃ میں دینا لازم ہوگا۔زکاۃ  کے سال کے درمیان جو رقم خرچ ہوجائے اس کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

نیز واضح رہے کہ زکاۃ  کا حساب قمری سال کے اعتبار سے کرنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے اگر آپ کو اپنے صاحبِ نصاب ہونے کی تاریخ یاد ہے تو  ہر سال اس تاریخ کو ورنہ کوئی ایک تاریخ (مثلاً یکم رمضان وغیرہ) متعین کرلیں اور ہمیشہ پھر اسی دن اپنے زکاۃ کا حساب کرلیا کریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں