صدقہ و خیرات اور زکاۃکے پیسے سے مسجد یا مدرسہ کی تعمیر کی جا سکتی ہے؟
زکات اور صدقاتِ واجبہ (مثلاً: نذر، کفارہ، فدیہ اور صدقہ فطر) ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے ؛ اس لیے رفاہی کاموں،شفاخانوں اور مدارس ومساجد کی تعمیر وغیرہ پر زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی ؛ کیوں کہ اس میں تملیک نہیں پائی جاتی۔ باقی نفلی صدقات وعطیات تعمیراتی کاموں میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
''فتاوی عالمگیری'' میں ہے:
" لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات، وإصلاح الطرقات، وكري الأنهار والحج والجهاد، وكل ما لا تمليك فيه، ولا يجوز أن يكفن بها ميت، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين". (1/ 188، کتاب الزکاۃ، الباب السابع فی المصارف، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200797
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن