بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کی رقم سے کسی لڑکی کی شادی کے لیے مدد کرنا


سوال

کیا زکات کے پیسوں سے لڑکی کی شادی میں مدد کی جاسکتی ہے؟

جواب

 اگر مذکورہ  لڑکی مستحقِ زکات ہے یعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی  ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر  رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہے تو اس کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی،  اگر اس کے  پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو تو اگر دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو زکات دینا جائز نہیں ہے، اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے اس کو زکات دینا جائز ہوگا۔ نیز زکات کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کا مالک بناکر رقم یا چیز حوالہ کی جائے۔

لہذا لڑکی اگر مستحق زکات ہے تو  اسے زکات کی رقم یا جہیز یا سونا وغیرہ  مالک بناکر دے دیا جائے یا اگر اس کے والدین زکات کے مستحق ہیں تو انہیں زکات کی رقم مالک بناکر دے دے پھر وہ اپنی بیٹی کے شادی کے اخراجات پورے کرلیں۔شادی کے وہ اخراجات جن میں کسی مستحق کو مالک بنانا نہ پایا جائے، (مثلاً ہال وغیرہ کی بکنگ یا کھانے کے اخراجات کی ادائیگی) ان مدات میں از خود رقم صرف کرنے سے زکات ادا  نہیں ہوگی۔

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية. ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي". (1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں