بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ کے متعلق چند مسائل


سوال

میں اور میرے شوہر نے کریڈٹ  کارڈز اور بینک سے کچھ ذاتی قرضہ جات لیے ہوئےہیں، اور ہم نے سونا خریدا۔ اس کے بعد ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم ایک سال تک سونے کی زکاۃ ادا نہیں کرسکے، اب سود کی رقم بھی  بڑھ گئی ہے، لیکن ہمیں اس قرض کی متعینہ رقم معلوم نہیں، میں اس سونے کی زکاۃ کس طرح ادا کروں؟

اور کیا میں پچھلے سال اور اس سال دونوں کی زکاۃ ادا کروں گی؟ میرے شوہر کہتے ہیں کہ: سودی اثاثوں پر زکاۃ لازم نہیں ہوتی ؛اس لیے کہ ہمیں قرض کی متعین رقم بھی معلوم نہیں ہے؟

کیا میں بجائے ایک ساتھ اداکرنے کے،  زکاۃ کی رقم قسط وار ادا کرسکتی ہوں؟  آپ راہ نمائی فرمادیں ،میں کیا کروں؟ 

جواب

واجب الادا  سود سمیت قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد اگر آپ یا آپ کے شوہر کی ملکیت میں  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نقدی یا سونا اورنقدی ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت موجود ہے توپھر زکاۃ واجب ہے۔آپ کے شوہر کا یہ کہنا کہ: سودی اثاثوں پر زکاۃ لازم نہیں ہوتی، اس کامطلب اگر یہ ہے کہ :جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ قرضے میں واپس دیا جائے گا اورہم مقروض ہیں تو درست ہے۔اگر مطلب یہ ہے کہ: یہ اشیاء بینک سے بطور قرض لی ہیں اوربینک سودی ادارہ ہے تو ان کا کہنادرست نہیں۔اس صورت میں جواب وہ ہے جو شروع میں گزرچکا کہ قرضہ منہا کرنے کے بعد اگر آپ صاحبِ نصاب ہیں تو زکاۃ کی ادائیگی واجب ہے۔

بہتر تو یہی ہے کہ جلد از جلد زکاۃ کی رقم سے اپنے مال کو فارغ کر لیا جائے، تاہم اگر قسط وار زکاۃ دی جائے تو بھی جائز ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143808200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں