بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاۃ سے متعلق ایک شبہ


سوال

اگر  کوئی شخص کراچی کے کسی اچھے علاقہ میں رہتا ہو، مثلاً: ڈیفنس میں اور اس کے گھر کی مالیت 20 کروڑ ہو اور اس کی سواری کی قیمت 50 لاکھ ہو اور اس کے پاس 50 لاکھ روپے کا سونا ہو اور اس کے اوپر صرف  ایک کروڑ روپے کا قرض ہو تو میں ایک عالم کو سن کر بہت حیران ہوا جب  انہوں نے فرمایا کہ ایسے آدمی کے اوپر زکاۃ فرض نہیں ہے ، جب کہ دوسری طرف اگر ایک آدمی لانڈھی میں کرائے کے مکان میں رہتا ہو اور اس کے پاس گاڑی بھی نہ ہو اور وہ گھر لینے کے لیے پیسہ جمع کر رہا ہو اور اس کے پاس 30 لاکھ روپے  ہوں تو اس کے اوپر 75 ہزار روپے زکاۃ فرض ہو جائے گی۔ اگر یہ مسئلہ درست ہے تو کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اتنے مہنگے گھروں اور گاڑیوں پر زکاۃ ادا نہ کر کے اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں؟ میرے خیال سے  مفتیان کو چاہیے کہ گھروں اور گاڑیوں کی کوئی درمیانی قیمت متعین کر دیں تاکہ اس مسئلہ کا حل نکل سکے!

جواب

زکاۃ سے متعلق شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ زکاۃ بڑھنے والے مال پر واجب ہوتی ہے، اور بڑھنے والے مال سے مراد چار چیزیں ہیں:

1۔سونا 2۔چاندی 3۔کیش 4۔ مالِ تجارت۔

اگر کسی شخص کے پاس ان چاروں چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ہو یا اتنا ہو کہ وہ نصاب ( یعنی صرف سونا ہونے کی صورت میں ساڑھے سات تولہ سونا، چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ، کیش اور مالِ تجارت کا نصاب بھی آج کل چاندی کے حساب سے ہی لگایا جائے گا)   تک نہ پہنچتا ہو تو ایسے شخص کے اوپر زکاۃ واجب نہ ہو گی۔

پھر یہ ضابطہ  بھی ذہن نشین رہے کہ اگر کسی آدمی کے پاس ان  چار چیزوں میں سے اتنا ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو، لیکن وہ مقروض ہو اور اس کا قرض اتنا ہو کہ اگر وہ اپنا قرض ادا کر دے تو اس کے پاس نصاب کے بقدر مال نہیں بچے گاتو ایسے شخص کے اوپر بھی زکاۃ واجب نہ ہو گی۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ قرض کی جتنی مقدار ایک سال کے اندر اندر ادا کرنا ضروری ہو (یعنی ایک سال میں قرض خواہ اس کا مطالبہ کررہے ہوں تو)وہ کل مالیت سے منہا کی جائے گی، اور ایک سال کے بعد جو قرض ادا کرنا ہو وہ منہا نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح زکاۃ سے متعلق ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ زکاۃ ضروریاتِ اصلیہ پر واجب نہیں ہوتی یعنی وہ چیزیں جو انسان کی ضرورت کی ہیں اور روز مرہ کی زندگی میں انسان ان اشیاء کا محتاج ہوتا ہے، مثلاً: مکان، سواری وغیرہ  تو ایسی اشیاء پر بھی زکاۃ واجب نہیں ہے خواہ اس مکان یا سواری کی قیمت بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ نیز مذکورہ بالا چار چیزوں( سونا، چاندی، نقدی اور مالِ تجارت) کے علاوہ جو چیزیں استعمال میں ہوں وہ بھی بڑھنے والا مال نہیں ہیں، اس لیے ان کی قیمت کتنی ہی کیوں نہ ہو ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، مثلاً: کسی کے پاس رہائش کے دو گھر ہوں تو اگرچہ ایک گھر سے ضرورت پوری ہورہی ہو، اور دوسرا گھر اضافی ہو، لیکن جب وہ استعمال میں ہو اور اسے تجارت کی نیت سے نہیں لیا ہو تو وہ بڑھنے والا مال نہیں، بلکہ استعمال میں آنا والی چیز ہے، اس لیے رہائش کے گھر کی مالیت کو قابلِ زکاۃ اموال میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔

مذکورہ تمہید سے واضح ہو گیا کہ آپ نے جو مسئلہ کسی عالم سے سنا ہے، وہ بالکل درست ہے اور پہلے شخص کے اوپر زکاۃ اس لیے واجب نہیں کہ وہ  ضروریاتِ اصلیہ کے علاوہ نصاب کا مالک نہیں، گو  اس کے پاس گھر بھی ہے، لیکن وہ ضروریاتِ اصلیہ میں سے ہے، اور اس کے پاس سواری بھی ہے، لیکن وہ بھی ضروریاتِ اصلیہ میں سے  ہے، اور اس کے پاس جو سونا ہے اس سے زیادہ اس کے اوپر قرض ہے؛ لہذا اس کے پاس ضرورت سے زائد کوئی چیز نہیں، اس لیے اس کے اوپر زکاۃ بھی فرض نہیں۔ البتہ جس کو اللہ پاک نے اتنی نعمتوں سے نوازا ہو اس کو چاہیے کہ وہ خوب صدقہ و خیرات کرے، یہ اس کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہو گا۔

اور جس آدمی کے پاس تیس لاکھ روپے موجود ہیں، اولاً تو یہ نقد رقم ان چار اموال میں سے ہے جس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، اور اس کی موجودہ ضروریاتِ اصلیہ  سے زائد بھی ہے؛ اس لیے اس کے اوپر زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گا، ہاں جب وہ شخص ان پیسوں سے  رہائش کے لیے گھر لے لے گا تو وہ ضروریات میں شامل ہو جائے گا، اور اس پر اس مکان کی  زکاۃ واجب نہ ہو گی۔

شریعتِ مطہرہ کے تمام احکامات آسمان سے نازل شدہ ہیں اور شریعت نے یہ روا نہیں رکھا کہ ہم اپنی عقل  و سوچ سے شریعت کے احکامات میں تبدیلی کر لیں؛ اس لیے شریعت کے معاملے میں ہمیں اپنی عقل کو استعمال کرنے کے بجائے احکامِ شرعیہ کو من و عن قبول کرنا چاہیے اور دین کی تعلیمات پر  عمل کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں