بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کا حساب


سوال

میں مسجدمیں مؤذن ہوں ساتھی میرے اکاونٹ میں مکان بنانے کےلیے دو تین لاکھ روپے دیتے رہے، 3سال سےزائد عرعرصہ گزرگیا، کچھ میرے پاس اپنےپیسےتھے، دوست احباب کی طرف سے10ؑلاکھ ایک جگہ کاروبار میں، 5لاکھ دوسری جگہ پراپرٹی میں جب کہ 19لاکھ اس کے علاوہ ہے، 2لاکھ قرض دیےہیں، پراپرٹی سے 7مہینے بعد 70ہزار منافع ہواہے ۔باقی 10لاکھ والے سے 2سال سے کبھی 11,10,13ہزار ملتے رہے، اب سوال یہ ہے کہ ان کی زکاۃ کیسے اداکروں جب کہ مجھے صحیح وقت یاد نہیں 19لاکھ میں میرے ماہانہ 17ہزار تنخواہ کے ساتھ جوکہ ہرمہینہ کرنٹ اکاونٹ میں آتی ہے؟

جواب

آپ نے جتنے بھی اموال ذکر کیے ہیں، تمام کی رقم قابلِ زکاۃ ہے، نیز جو نفع ان سے حاصل ہوا ہے سال کے آخر میں جتنی رقم اس میں سے موجود ہو اس پر بھی زکاۃ ہوگی، لہذا جب سے آپ صاحبِ نصاب بنے ہیں، اسی وقت سے آپ کی زکات کا سال شمار ہوگا، اس کے بعد درمیان میں جو رقم آتی رہی اس کے سال کا حساب الگ سے نہیں ہوگا، نیز جب سال کے آغاز اور اختتام پر آپ صاحبِ نصاب ہوں تو سال کے درمیان رقم کے کم وبیش ہونے سے فرق نہیں پڑے گا، اب اگر آپ کو صحیح وقت یاد نہیں ہے تو  جس قدر ہوسکے تحقیق کرلیں کہ پہلی مرتبہ ضرورت سے زائد نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر رقم آپ کے پاس کب آئی؟ اور اگر تحقیق نہ ہوسکے تو غالب گمان کے مطابق جب آپ کے پاس پہلی مرتبہ نصاب کے برابر رقم آئی تھی اسی وقت آپ کا سوال شروع ہوگیا تھا، اب ہر سال اسی تاریخ کو آپ اپنے اکاؤنٹ میں  اپنا بیلنس دیکھ لیں ، جو ان تمام مدات سے حاصل ہوا ہے، اس کا ڈھائی فیصد  بطورِ زکاۃ ادا کردیں۔ نیز اس میں جو قرض آپ نے دیا ہے اور اس کے ملنے کی امید بھی ہے اس کو بھی شامل کرکے اس کی زکات بھی نکالیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں