بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں زیورات و جائیداد بچوں کو ھبہ کرنا


سوال

کیا میں اپنا زیور اور پراپرٹی اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو دے سکتی ہوں؟ بچے بالغ تو ہیں مگر اختیارات دینے کے قابل نہیں ہیں، گھر کا نظام بھی میں ہی چلا رہی ہوں، تمام آمدنی ایک جگہ ملا کر، ایسے میں کیسے تقسیم کی جائے؟ یا میری وفات کے بعد شرعی طریقے پر تقسیم کیا جائے ؟

 

جواب

زندگی میں ہر کوئی اپنی جائیداد اور تمام مملوکہ اشیاء  پر ہر طرح کے جائز تصرف کرنے  کا اختیار رکھتا ہے، چاہے خود استعمال کرے ، چاہے کسی کو ہبہ کرے۔  اگر زندگی میں اپنی اولاد کو اپنی جائیداد میں سے کچھ  دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ ہبہ ہے،اور ''ہبہ'' کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا جو جائیداد اولاد میں سے کسی کو مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ  دی جائے تو وہ جائیداد اس کی ملکیت میں آجائے گی، اور دینے والے کے انتقال کے بعد وہ اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی، لیکن جو جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہے گی اور اس کے انتقال کے بعد اس کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔

نیز اگر کوئی  زندگی میں اپنی جائیداد اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرکے ان کو ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے شریعتِ مطہرہ کی تعلیمات یہ ہیں کہ وہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری کرے، کسی شرعی وجہ کے بغیر کسی کو کم کسی کو زیادہ نہ دے، اور نہ ہی بیٹے اور بیٹیوں میں فرق کرے،(یعنی بیٹیوں کو کم دینا یا نہ دینا جائز نہیں ہے) ، اگر بلا وجہ بیٹے اور بیٹیوں میں سے کسی کو کم دے یا محروم کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ البتہ اگر اولاد میں سے کسی بیٹے یا بیٹی کے زیادہ نیک و صالح ہونے یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اس کو دیگر کے مقابلہ میں کچھ زائد دے تو اس کی گنجائش ہے۔

بصورتِ مسئولہ آپ چاہیں تو زندگی میں ہبہ کر کے تقسیم کر دیں اور چاہیں تو زندگی میں اپنے پاس رکھیں اور آپ کے انتقال کے بعد یہ جائیداد آپ کے ترکہ کے طور پر ضابطہ شرعی کے موافق ان کے درمیان تقسیم ہو جائے گی۔بہتر یہی معلوم ہوتا کہ فی الحال تقسیم نہ کی جائے ایک تو اس وجہ سے کہ اولاد ابھی قابل نہیں ہے، اوردوسرے اس وجہ سے کہ تقسیم کے بعد بعض حوالوں سے والدین کو سخت ندامت ہوجاتی ہے کہ انہوں نے تقسیم کیوں کی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)

'' ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم''

''فتاویٰ تاتارخانیہ'' میں ہے:

'' و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً''۔ (ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکريا هند)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690)

'' (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں