بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

 میرے نانا کی ایک جائیداد ہے ، اور ان کے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، بیٹے جائیداد میں رہ رہے ہیں اور نانا نے اپنی زندگی میں انہیں ایک ، ایک دکان بھی دی ہوئی ہے،جس کا کرایہ تینوں ماموں وصول کرتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ بیٹیوں کا شرعی حصہ کیا ہوگا؟اور اگر ماموں جائیداد سے فائدہ اٹھارہے ہیں تو کیا بیٹیوں کا حصہ بھی ناناکو  زندگی میں  دے دیناچاہیے؟یاوہ ناانصافی کررہے ہیں؟جائیدا د تقریباً ایک کروڑ کی ہے۔

جواب

زندگی میں جائیدادکی تقسیم درست ہے،اس بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ : یہ تقسیم وراثت نہیں، بلکہ ھبہ(گفٹ)ہے،لہذا بیٹوں اوربیٹیوں کوبرابرکاحصہ دیاجائے،بلاکسی شرعی سبب کے کمی بیشی نہ کی جائے،البتہ اگراولادمیں سے بعض فرمانبردار،نیک تابع دار اوردین دارہیں یامالی اعتبار سے دوسروں کی بہ نسبت کمزورحیثیت رکھتے ہیں تواس صورت میں بعض کوبعض پرترجیح دی جاسکتی ہے،لہذامذکورہ صورت حال میں اگر سائل کے نانا نے مذکورہ جائیداداپنے بیٹوں کودے دی ہےتو وہ ان کی ملکیت  ہوچکی ہے، مگر اولاد میں مساوات قائم رکھنےکے لیے انہیں بیٹیوں کو بھی اپنی جائیداد میں حصہ دیناچاہیے۔بہتر یہ ہے کہ: جتنا حصہ بیٹوں کو دیا ہے اتناہی بیٹیوں کو بھی دیاجائے۔اگر نانا نے صرف کرایہ وصولی کاحق بیٹوں کو دیا ہے تو جائیداد تاحال ان ہی کی ہے ، تاہم اگر بیٹیاں محتاج ہیں تو ان کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143810200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں