بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں جائیداد کی تقسیم


سوال

میرے پاس جو جائیداد ہے، وہ میں اپنی زندگی میں اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں تاکہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو۔

جائیداد کی تفصیل درج ذیل ہے:

1.  دوکان جس کی مالیت تقریباً 90 لاکھ روپے ہے۔

2۔ ایک فلیٹ جس میں ہماری رہائش ہے  ، جس کی مالیت تقریباً 1 کڑوڑ 20 لاکھ ہے۔

 3.  ایک فلیٹ جو کرایہ پر دیا ہے اس کی مالیت 12 لاکھ ہے۔

 4.  ایک فلیٹ ہے جو کرایہ پر اٹھایا ہوا ہے جس کی مالیت 10 لاکھ ہے۔

5.  ایک دوکان جو کرایہ پر اٹھی ہوئی ہے جس کی مالیت 4 لاکھ ہے۔

 6. ایک گاڑی ہے جس کی مالیت 1 لاکھ ہے۔

میرا ایک بیٹا تین بیٹیاں اور ایک بیوی ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ پر اپنی جائیداد کی تقسیم شرعاً لازم نہیں اور زندگی میں تقسیم نہ کرنے کی صورت میں آپ پر گوئی گناہ بھی نہیں، اور آپ کی اولاد میں سے کسی کو بھی  آپ سے جائیداد کی تقسیم کے مطالبہ کا  شرعی حق نہیں۔  تاہم اگر آپ اپنی جائیداد اپنی مرضی و خوشی  سے اپنی زندگی میں  تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کل جائیداد میں سے جتنا چاہیں اپنے اور اپنی اہلیہ  کے لیے رکھنے کے بعد بقیہ جائیداد کو اپنی اولاد میں برابر  چار حصوں میں تقسیم کردیں اور  اپنی اولاد میں سے ہر ایک کو  ایک ایک حصہ دے دیں، جتنا حصہ ایک بیٹے کو دیں اتنا ہی حصہ ہر ایک  بیٹی کو دیں، کسی کو کم یا زیادہ دینا درست نہیں، البتہ اگر اولاد میں سے کوئی زیادہ خدمت گزار ہو، یا دین دار زیادہ ہو تو اس کو کچھ زیادہ بھی دے سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں