بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں ایک بیٹے کو کچھ دینے کا حکم


سوال

 میرے 3 بھائی اور 4 بہنیں ہیں،  میری امی نے اپنے ایک بیٹے کو تقریباً  6 مرلہ کا پلاٹ رجسٹری کر کے اور قبضہ کے ساتھ دیا ہے اپنی زندگی میں. اور سب کو بتا کر دیا ہے اور کسی بہن بھائی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور ان کی خوشی میں خوش رہے اور ان کے دینے کی وجہ یہ تھی کہ یہ سب سے چھوٹا ہے اس کا کوئی  کاروبار اور مکان بھی نہیں ہے اور اس کی شادی بھی نہیں ہوئی،  جب کہ باقی سب بہن بھائی شادی شدہ ہیں،  الگ رہتے ہیں. اب امی کا انتقال ہو گیا ہے. تو کیا اس میں ان کی طرف سے کسی کی کوئی حق تلفی تو نہیں ہے؟ اور کیا اس ایک بیٹے کو جس کو وہ پلاٹ دیا وہ سب میں برابر تقسیم کریں؛ تاکہ اس کی امی کی طرف سے کسی کی حق تلفی نہ ہو اور وہ سرخرو رہیں دنیا وآخرت میں؟  جب کہ کوئی بہن بھائی متقاضی بھی نہیں ہے اور  سب امی کے فیصلہ پر راضی ہیں!

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی والد یا والدہ اپنے بچوں میں سے کسی کو کوئی چیز ہدیہ کریں اور دوسروں  کو  کچھ نہ دیں اور اُن کی نیت محروم کرنے کی ہو تو اس صورت میں ایسے والدین گناہ گار ہوں گے، لیکن اگر  والدین کسی جائز مقصد کے تحت کسی بچے کو  کچھ  دیں اور دوسروں کو  دُکھ دینے کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا درست ہے، اس میں حرج نہیں۔

لہذا آپ کی والدہ محترمہ نے اگر اپنے ایک بیٹے کو جائز مقصد کے تحت ایک پلاٹ دیا ہے تو ان کا یہ فعل درست ہے اور اس میں کسی کی حق تلفی نہیں ہے، اور نہ ہی اس بیٹے پر لازم ہے کہ وہ یہ پلاٹ باقی بہن بھائیوں میں تقسیم کرے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں