بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اپنی جائے داد بیوی، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہ


سوال

میں اپنی زندگی میں ہی اپنی جائے داد  اپنے دو بیٹوں اور تین بیٹیوں میں تقسیم کرنا چاہتاہوں، میرے بچوں کی ماں بھی حیات ہے،تفصیلاً راہ نمائی فرمائیں!

جواب

زندگی میں اپنی جائے داد  کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنے کی حیثیت ہبہ اور تحفہ کی ہے، لہٰذا اگر آپ اپنی زندگی ہی میں اپنی جائے داد  اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو شرعاً اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی جائے داد  میں سے جتنی مقدار اپنے لیے  رکھنا چاہتے ہیں وہ رکھنے کے بعد اپنی جائے داد  میں سے کم از کم آٹھواں حصہ اپنی بیوی کو دینے کے بعد باقی جائے داد  اپنے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان  برابر ،برابر تقسیم کردیں، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نہ دیں؛ کیوں کہ ہبہ (تحفہ) کے بارے میں شریعتِ مطہرہ کی ہدایت یہ ہے کہ تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابری رکھی جائے، بلاوجہ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے۔

البتہ اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو زیادہ دِین دار یا خدمت گزار  یا ضرورت مند ہونے  کی وجہ سے دیگر کے مقابلے میں کچھ زائد دینا چاہے تو اس کی گنجائش ہے۔ دوسری بات یہ بھی ضروری ہے کہ جائے داد  تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصہ پر باقاعدہ ایسا قبضہ دے دیا جائے کہ اس کو اس میں تصرف کرنے کا پورا اختیار ہو، ورنہ شرعاً یہ ہبہ معتبر نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696):

"ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم".

فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:

"و علی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطي من أولاده من کان متأدباً". (ج: ۳ ؍ ۴۶۲، ط:زکریا، هند)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 690):

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں