بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں اولاد کے درمیان مال کی تقسیم کا حکم اور طریقہ


سوال

میں افتخار احمد بن عبد الخالق جو کہ چار لاکھ ستانوے ہزار روپے کا مالک ہوں میں اپنی زندگی ہی میں اس رقم کو اپنی اولادوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں، میرے کل سات بچے ہیں تین بیٹے اور چاربیٹیاں ، جب کہ میری اہلیہ بھی حیات ہیں، برائے مہربانی میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں یہ رقم صرف اپنی اولادوں میں ہی تقسیم کر سکتا ہوں یا اہلیہ کو بھی اس میں سے حصہ دینا ضروری ہے؟  دونوں صورتوں میں مجھے یہ بتادیں کی فی فرد کے حصے میں کتنی رقم آئیگی؟ اور کیا زندگی میں بھی وراثت کی تقسیم کے وقت ایک بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہوگا یا کوئی اور طریقہ تقسیم ہوگا؟

جواب

زندگی میں  آپ اپنے سرمایہ کے بلاشرکت غیرے مالک ومختار ہیں، اولاد یا اہلیہ کا آپ کی حیات میں آپ کی زیر ملک اشیاٗء  میں کوئی حصہ نہیں، اگر سائل اپنی زندگی میں اپنے مال کو اولاد میں تقسیم کرنا چاہے تو اپنے  اور اپنی اہلیہ کے لیے جتنا چاہے رکھ لے اور بقیہ اپنی اولاد میں برابر تقسیم کردے۔اولاد کو ہدیہ دینے میں برابری کرنی چاہیے بلاوجہ کمی بیشی کرنے کی اجازت نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے: متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ  وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)

بیٹے کا حصہ بیٹی کی بہ نسبت دوہرا ہونا،وراثت کااصول ہے جب کہ عطیہ کا اصول یہ ہے کہ عام حالات میں برابری کرنی چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143807200015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں