بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ریکارڈنگ والی اذان کا حکم


سوال

بعض مقامات (مثلًا ائیرپورٹ وغیرہ) پر نماز کے لیے اذان کی ریکارڈنگ چلائی جاتی ہے، آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ اس سے اذا ن کی سنت ادا ہوجائے گی؟

جواب

سنت یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت عاقل ، بالغ یا سمجھ دار شخص اذان دے ، اذان کے وقت ریکارڈ شدہ اذان  چلا دینے سے اذان کی سنت ادا نہیں ہوگی؛ لہذا جس جگہ پر اذان نہیں دی جاتی، بلکہ صرف  اذان کی ریکارڈنگ چلائی جاتی ہو اور   آس پاس قریب کی جگہوں سے اذان کی آواز بھی  نہ آتی ہو تو  ایسے مقام پر جو نمازی حضرات ریکارڈنگ والی اذان کی آواز سن کر نماز پڑھیں گے ان کی نماز بغیر اذان کے پڑھی ہوئی شمار ہوگی، ایسے مقام پر نماز سے پہلے اگر کوئی شخص جماعت سے پہلے اذان دے دے تو اذان کی سنت ادا ہوجائے گی۔

مفتی احمد الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ ایک فتویٰ (جس پر محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ کی تصدیق موجود ہے) میں تحریر فرماتے ہیں:

" ٹیپ ریکارڈ سے اذان نشر کرنا اوقاتِ نماز کے "اعلام" کے لیے کافی نہیں ہے، اور اس طرح اذان نشر کرنے سے مشروعیتِ اذان نہ ہوگی، اس لیے کہ اذان من جملہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے، اور عبادت ادا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی مکلف اور عبادت کرنے والا موجود ہو، اور ظاہر ہے کہ یہاں کوئی مکلف موجود نہیں ہے، اگر اس طرح ٹیپ ریکارڈ سے اذان نشر کرنے کو جائز قرار دیا جائے تو پھر دوسری عبادات میں بھی، مثلاً: کسی امام کی ریکارڈ کی ہوئی نماز کو مصلے پر رکھ کر اس کی اقتدا کی جائے، ٹیپ ریکارڈ سے وہ عبادات مشروع قرار نہیں دی جائیں گی، تو جس طرح ٹیپ ریکارڈ مصلے پر رکھ کر نماز میں اس کی اقتدا کرنا ناجائز ہے اسی طرح ٹیپ ریکارڈ سے نشر کی ہوئی اذان بھی منشأ شریعت کے خلاف اور غیر مشروع ہے"۔

"وذكر في البدائع أيضاً: أن أذان الصبي الذي لايعقل لايجزي ويعاد؛ لأن ما يصدر لا عن عقل لا يعتد به، كصوت الطيور ...... أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة, ثم صار من شعار الإسلام في كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة". ( فتاوی شامی 1/394 ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں