مدرسہ میں رہنے والے رہائشی طلبہ کے لیے مدرسہ وطنِ اقامت کہلائے گا یا وطنِ اصلی کہلائےے گا ؟
جو طلبہ مسافتِ سفر سے آکر کسی ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اور ان کاارادہ اپنی تعلیم کا دورانیہ مکمل کرکے اپنے وطن واپس جانے کا ہوتاہے، ایسے طلبہ مدرسہ میں جب 15دن سے زیادہ اقامت کی نیت کرلیں تو مدرسہ ان کے لیے وطنِ اقامت کہلائے گا، یعنی جب اب دوبارہ جب بھی وہ اپنے آبائی علاقے سے واپس لوٹیں گے تو ہر مرتبہ انہیں پندرہ دن اقامت کی نیت نہیں کرنی ہوگی۔
ان طلبہ کے لیے مدرسہ وطنِ اصلی نہیں کہلائے گا۔
فقہا نے وطنِ اصلی کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان کی جائے ولادت یا جہاں اس نے شادی کرکے رہنے کی نیت کرلی یا کسی جگہ مستقل رہنے کی نیت کرلیہو ، اور وہاں سے مستقل کوچ کرنے کا ارادہ نہ ہو،تو یہ جگہ وطنِ اصلی بن جاتی ہے۔ اس تعریف کی رو سے مدرسہ میں رہائش پذیر طلبہ کے لیے مدرسہ وطنِ اصلی نہیں کہلاسکتا۔
البحرالرائق میں ہے :
’’والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده ، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها‘‘. (5/115)
فتاوی شامی میں ہے:
’’( الوطن الأصلي ) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه‘‘. (2/131)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
’’وطن قرار ويسمى الوطن الأصلي وهو أنه إذا نشأ ببلدة أو تأهل بها توطن بها‘‘. (2/237) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200964
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن