بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع سے اٹھنے کے بعد  سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد ربنا لک الحمد کہنا


سوال

 کیا امام جماعت کراتے ہوئے  رکوع سے اٹھتے ہوئے  "سمع اللہ لمن حمدہ" کے بعد "رَبنا لک الحمد" کہے گا یا نہیں؟

جواب

نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اور مقتدی  ”ربنا لک الحمد“ کہیں، اور اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہے تو وہ یہ دونوں کہے، باقی امام ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ کہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ہمارے مشایخ میں مختلف فیہ ہے،  امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے امام صرف ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے پر اکتفا کرے، فتویٰ اسی پرہے۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام صاحب کی ایک روایت یہ ہے کہ امام   ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ بھی کہے یہ افضل اور مستحب ہے، اور متاخرین میں سے بہت سے مشایخ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، یہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
"(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعاً) في الولوالجية لو أبدل النون لا ما يفسد وهل يقف بجزم أو تحريك؟ قولان (ويكتفي به الإمام) ، وقالا: يضم التحميد سراً (و) يكتفي (بالتحميد المؤتم) وأفضله: اللهم ربنا ولك الحمد، ثم حذف الواو، ثم حذف اللهم فقط. 

(قوله: وقالا: يضم التحميد) هو رواية عن الإمام أيضاً، وإليه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرين، معراج عن الظهيرية. واختاره في الحاوي القدسي، ومشى عليه في نور الإيضاح، لكن المتون على قول الإمام".

الفتاوى الهندية (1/ 74):

"فإن كان إماماً يقول: سمع الله لمن حمده بالإجماع، وإن كان مقتدياً يأتي بالتحميد ولايأتي بالتسميع بلا خلاف، وإن كان منفرداً الأصح أنه يأتي بهما، كذا في المحيط. وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية وهو الأصح". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں