بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رویت ہلال میں چار ائمہ کا مسلک


سوال

ہم آسٹریلیا میں رہتے ہیں اور ہر سال ہمیں چاند دیکھنے میں مسائل ہوتے ہیں،  رمضان اور عید کے حوالے سے۔  میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ کیلنڈر کے ذریعہ عید منانا یا رمضان شروع کرنا صحیح نہیں، لیکن چار ائمہ کا مقامی سطح پر چاند دیکھنے اورعالمی سطح پر چاند دیکھنے کے اعتبارسے کیا موقف ہے؟ کیا اکثریت کی اتباع کرنا درست ہے؟

جواب

کسی بھی ملک میں رہنے والے مسلمان چانددیکھ کررمضان اورعیدکریں؟ یادوسرے ملک کی رؤیت پراعتبارکرلیں ؟ اس مسئلہ کوفنی اعتبارسے ’’اختلافِ مطالع کے اعتبار یا عدمِ اعتبار کا مسئلہ‘‘ کہاجاتاہے۔ اس سلسلہ میں حنفیہ کے نزدیک راجح قول یہی ہے کہ قریبی ملکوں اورشہروں میں جوایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں اختلافِ  مطالع کااعتبارنہیں، بلکہ ایک مقام پرنظرآنے والاچاند دوسرے  قریبی شہروں اورپڑوسی ملک کے لیے بھی حجت ہے۔ البتہ اگرایک ملک دوسرے ملک سے کافی فاصلے پرواقع ہے، تواس صورت میں اختلافِ  مطالع کااعتبارہوگا، یعنی دوسرے ملک کے لیے الگ رؤیت کااعتبارہوگا۔ وہاں کے باشندوں کوچاہیے کہ چانددیکھ کررمضان اورعیدکریں۔ اس قول کو علامہ زیلعی، علامہ کاسانیؒ رحمہما اللہ نے ترجیح دی ہے، اوراکابرینِ دیوبندمیں سے علامہ انورشاہ کشمیری،علامہ شبیراحمدعثمانی،مفتی محمدشفیع عثمانیؒ اورعلامہ سیدمحمدیوسف بنوری  رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل تھے۔

اسی قول کی مؤیدروایت ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

’’کریب کہتے ہیں کہ  امِ  فضل بنتِ  حارث نے مجھ کو امیر معاویہ کے پاس شام بھیجا، کریب کہتے ہیں: میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا، اسی اثنا میں رمضان آگیا، پس ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا، پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو ابن عباس نے مجھ سے چاند کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا؟  میں نے کہا:  جمعہ کی شب کو، ابن عباس نے فرمایا: تم نے خود دیکھا تھا؟  میں نے کہا: لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا ،امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس نے فرمایا:  ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا؛ لہذ اہم تیس روزے رکھیں گے یا یہ کہ عیدالفطر کا چاند نظر آجائے۔ حضرت کریب کہتے ہیں: میں نے کہا:  کیا آپ کے  لیے امیر معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟  ابن عباس نے فرمایا:  نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح حکم دیا ہے‘‘۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (22 / 35):

"ذهب الجمهور إلى أنه لا عبرة باختلاف المطالع، وهناك من قال باعتبارها، وخاصة بين الأقطار البعيدة، فقد قال الحنفية في هذه الحالة…".

 مالکیہ  کے نزدیک کسی ایک شہر میں چاند نظر آجانے سے تمام شہروں میں رمضان کے روزے رکھنا اور عید منانا راجح ہے۔ البتہ بعضوں نے دور کے شہروں میں اس کو معتبر نہیں مانا ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (22 / 36):

"وقال المالكية بوجوب الصوم على جميع أقطار المسلمين إذا رئي الهلال في أحدها. وقيد بعضهم هذا التعميم فاستثنى البلاد البعيدة كثيراً كالأندلس وخراسان".

شافعیہ کے نزدیک ہر شہر کا اپنی رؤیت کے حساب سے رمضان کے روزے رکھنا اور عید منانا راجح ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (22 / 36):

"وعمل الشافعية باختلاف المطالع فقالوا: " إن لكل بلد رؤيتهم، وإن رؤية الهلال ببلد لايثبت بها حكمه لما بعد عنهم ". كما صرح بذلك النووي".

حنابلہ کے نزدیک کسی ایک شہر میں چاند نظر آجانے سے تمام شہروں میں رمضان کے روزے رکھنا اور عید منانا راجح ہے۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (22 / 37):

"وقال الحنابلة بعدم اعتبار اختلاف المطالع، وألزموا جميع البلاد بالصوم إذا رئي الهلال في بلد".

آپ اکثریت کی اتباع کے بجائے اپنے مسلک کے علماء کی اتباع کریں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200456

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں