بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رمی کی تفصیل


سوال

حج کے موقع پر جو رمی کی جاتی ہے، اس کا سیاق و سباق مفصل بیان فرمادیں ۔

جواب

حج میں رمی کرنا واجب ہے اور رمی کا وقت 10، 11 اور 12 ذوالحجہ ہے۔

10 ذوالحجہ کو مزدلفہ سے منی واپس آنے کے بعد پہلے اور دوسرے شیطان کو چھوڑ کر سیدھا تیسرے شیطان کے پاس جاکر اسے الگ الگ سات کنکریاں ماری جائیں۔ 10 ذوالحجہ کو رمی کا مسنون وقت سورج طلوع ہونے سے شروع ہو کر زوال تک ہے۔ پھر زوال سے مغرب تک بلا کراہت مباح وقت ہے اور مغرب سے صبح صادق سے پہلے تک مکروہ وقت ہے۔

11 اور 12 ذوالحجہ کو تینوں شیطانوں کو ترتیب سے الگ الگ سات کنکریاں ماری جائیں۔ ان دو دنوں میں رمی کرنے کا مسنون وقت زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک ہے اور غروب آفتاب سے صبح صادق تک مکروہ وقت ہے، اگر بلاعذر اگلے دن تک مؤخر کیا تو دم واجب ہوگا۔ (ماخوذ از حج کا انسائیکلوپیڈیا، ج۲)

نیز رمی کا تاریخی پس منظر  یہ ہے کہ  جب حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کا حکم پورا کرنے کے لیے ذبح کرنے لے جارہے تھے تو اس وقت جہاں جمرہ عقبہ ہے، وہاں شیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماریں  یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر شیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا جہاں اب دوسرا  جمرہ ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماریں  یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا، پھر شیطان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس  آیا جہاں اب تیسرا  جمرہ  ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماری یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا۔ اسی کی یاد اور سنتِ ابراہیمی کی تعمیل میں یہ رمی کی جاتی ہے، جس سے شیطان مزید رسوا ہوتاہے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (1 / 638):

"عن ابن عباس، رفعه قال: «لما أتى إبراهيم خليل الله المناسك عرض له الشيطان عند جمرة العقبة، فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثانية فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض، ثم عرض له عند الجمرة الثالثة فرماه بسبع حصيات حتى ساخ في الأرض»". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں