بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رمضان المبارک کی ( 27 ) ستائیسویں شب کو عمرہ کرنا


سوال

بہت سارے لوگ رمضان کی 27 تاریخ کو عمرہ کرتے ہیں اور اس کو بڑی فضیلت کی بات سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے حرم میں عمرہ کرنے والوں کا ہجوم اور بڑھ جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا رمضان کی ستائیس 27 تاریخ یا ستائیسویں شب کو عمرہ کرنے کی کوئی خاص فضیلت احادیث میں آئی ہے؟ اور خاص ستائیسویں شب کو عمرہ کرنا کیسا ہے؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے ، رمضان میں عمرہ کے ثواب کو حج کے ثواب برابر قرار دیا گیا ہے، اور ایک روایت میں آپ ﷺ نے رمضان میں عمرہ کرنے کو اپنے ساتھ حج کرنے کے برابر قرار دیا ہے،، چناں چہ صحیح بخاری میں ہے:

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ: " اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک انصاری عورت سے پوچھا: تمہارے لیے ہمارے ساتھ حج کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے جواب دیا :"ہمارے پاس صرف دو اونٹ ہیں، ایک پر میرا بیٹا اور اس کا  والد  حج کرنے چلے گئے اور دوسرا ہمارے لیے چھوڑ دیا تاکہ  ہم اس سے کھیتی کو سیراب کرنے کا کام لیں"۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب ماہ رمضان آئے تو اس میں عمرہ کر لینا ،کیوں کہ رمضان میں عمرہ کرنا حج کے برابر ہے“۔  اور مسلم کی روایت میں ہے کہ ”میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے“۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

’’حج عمرہ سے بڑھ کر ہے؛ اس لیے کہ حج میں دو باتیں ہوتی ہیں: ایک شعائر اللہ کی تعظیم، اور دوسرا لوگوں کا اجتماعی طور پر اللہ کی رحمت کے نزول کو طلب کرنا۔  اور عمرہ میں صرف پہلی بات پائی جاتی ہے،  لیکن رمضان میں عمرہ کرنے میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں، اس لیے کہ رمضان میں نیک لوگوں کے انوار ایک دوسرے پر پلٹتے ہیں اور روحانیت کا نزول ہوتا ہے، اس لیے رمضان میں عمرہ کو حج کے برابر قرار دیا گیا‘‘.  (اب تو  رمضان میں عمرہ کرنے کے لیے بھی ایک بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔) 

بعض علماء نے یہ توجیہ بھی کہ ہے رمضان کے شرف اور فضیلت کی وجہ سے اس میں عمرہ کا ثواب بڑھ جاتا ہے، اس لیے فضیلت والے وقت میں عبادت کا ثواب بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔

اور بالخصوص آخری عشرہ اور پھر اس میں بھی طاق راتوں میں اس کی فضیلت اور بھی زیادہ ہوگی، اس لیے احادیثِ مبارکہ میں آخری عشرہ کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کہ وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے، اور پھر اس میں بعض صحابہ کرام سے تجربات اور علامات کی روشنی میں  27 شب کا  شب قدر ہونابھی منقول ہے، لہذا اس میں عمرہ کرنا بلاشبہ افضل ہے،  اگر خوش نصیبی سے لیلۃ القدر بھی پالی گئی تو کئی سالوں کی عبادت کا ثواب اس عمرہ سے مل جائے گا۔

صحيح البخاري (3/ 3):
"عن عطاء قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يخبرنا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لامرأة من الأنصار، - سماها ابن عباس فنسيت اسمها -: «ما منعك أن تحجين معنا؟» ، قالت: كان لنا ناضح، فركبه أبو فلان وابنه، لزوجها وابنها، وترك ناضحاً ننضح عليه، قال: «فإذا كان رمضان اعتمري فيه، فإن عمرة في رمضان حجة» أو نحواً مما قال".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (10/ 117):
"وَفِي رِوَايَة لمُسلم: (قَالَت: لم يكن لنا إلاَّ ناضحان، فحج أَبُو وَلَدهَا وَابْنهَا على نَاضِح، وَترك لنا ناضحا ننضح عَلَيْهِ) الحَدِيث، قَوْله: (فَإِن عمْرَة فِي رَمَضَان حجَّة) وارتفاع حجَّة على أَنه خبر ان تَقْدِيره كحجة وَالدَّلِيل عَلَيْهِ رِوَايَة مُسلم وَهِي قَوْله: (فَإِن عمْرَة فِيهِ تعدل حجَّة) وَفِي رِوَايَة أُخْرَى لمُسلم: (فعمرة فِي رَمَضَان تقضي حجَّة، أَو حجَّة معي) . وَكَأن البُخَارِيّ أَشَارَ إِلَى هَذَا بقوله: (أَو نَحوا مِمَّا قَالَ) أَي: النَّبِي، صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَقَالَ الْكرْمَانِي: فَإِن قلت: ظَاهره يَقْتَضِي أَن عمْرَة فِي رَمَضَان تقوم مقَام حجَّة الْإِسْلَام، فَهَل هُوَ كَذَلِك؟ قلت: مَعْنَاهُ: كحجة الْإِسْلَام فِي الثَّوَاب، والقرينة الْإِجْمَاع على عدم قِيَامهَا مقَامهَا. وَقَالَ ابْن خُزَيْمَة: إِن الشَّيْء يشبه بالشَّيْء، وَيجْعَل عدله إِذا أشبهه فِي بعض الْمعَانِي لَا جَمِيعهَا، لِأَن الْعمرَة لَا يقْضى بهَا فرض الْحَج، وَلَا النّذر، وَنقل التِّرْمِذِيّ عَن إِسْحَاق بن رَاهَوَيْه أَن معنى هَذَا الحَدِيث نَظِير مَا جَاءَ أَن {قل هُوَ الله أحد} (الْإِخْلَاص: 1) . تعدل ثلث الْقُرْآن، وَقَالَ ابْن الْعَرَبِيّ: حَدِيث الْعمرَة هَذَا صَحِيح، وَهُوَ فضل من الله ونعمة، فقد أدْركْت الْعمرَة منزلَة الْحَج بانضمام رَمَضَان إِلَيْهَا. وَقَالَ ابْن الْجَوْزِيّ: فِيهِ أَن ثَوَاب الْعَمَل يزِيد بِزِيَادَة شرف الْوَقْت، كَمَا يزِيد بِحُضُور الْقلب وبخلوص الْقَصْد. وَقيل: يحْتَمل أَن يكون المُرَاد أَن عمْرَة فَرِيضَة فِي رَمَضَان كحجة فَرِيضَة، وَعمرَة نَافِلَة فِي رَمَضَان كحجة نَافِلَة".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1742):
"2509 - (وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن عمرة في رمضان» ) أي كائنة ( «تعدل حجةً» ) أي تعادل وتماثل في الثواب، وبعض الروايات حجة معي وهو مبالغة في إلحاق الناقص بالكامل ترغيبا، وفيه دلالة على أن فضيلة العبادة تزيد بفضيلة الوقت فيشمل يومه وليله أو بزيادة المشقة فيختص بنهاره والله أعلم".

حجة الله البالغة (2/ 89):
"وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "إن عمرة في رمضان تعدل حجة "، أقول: سره أن الحج إنما يفضل العمرة بأنه جامع بين تعظيم شعائر الله واجتماع الناس على استنزال رحمة الله دونها، والعمرة في رمضان تفعل فعله، فإن رمضان وقت تعاكس أضواء المحسنين ونزول الروحانية". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں