بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رضامندی کے ساتھ تقسیم میراث کے بعد تقسیم پر اعتراض کرنا


سوال

میری نانی نے کچھ جائیداد چھوڑی تھی، ان کے انتقال کے بعد میرے بڑے ماموں نے اپنے دو بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ مل کر جائیداد کے حصے کیے اور رقم تقسیم کرلی۔ ماموں کے انتقال کے بعد اب سارے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے صحیح حصے تقسیم نہیں کیے تھے۔ کیا اب یہ کہنا درست ہے کہ چونکہ پہلے سب متفق ہو چکے تھے اس لیے اب اس تقسیم کو معتبر مان لیا جائے۔ 

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس جائیداد میں سے ایک گھر میں میری مامی اپنے بچوں کے ساتھ اور چھوٹے ماموں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ سب سے چھوٹے ماموں دوسرے گھر میں رہتے ہیں، ان دونوں گھروں کا وہ اپنے اپنے طور پر کہتے ہیں کہ یہ ان کے ہیں، اور اس کی قیمت بھی نہیں دیتے ہیں۔ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

نانی کے ترکے کی تقسیم کے وقت اگر تمام ورثا اس تقسیم پر متفق ہوگئے تھے، اور جس وارث کے حصے میں جس قدر رقم آئی تھی، وہ اس وارث نے برضا وخوشی قبول کر لی تھی، تو یہ ایسا ہے کہ جیسا اس وارث نے اپنا پورا حصہ وصول کر لیا ہے۔ اب اس تقسیم پر کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ جن دو گھروں کے متعلق سائل شرعی حکم دریافت کرنا چاہ رہا ہے، اگر وہ بھی تقسیم شدہ جائیداد ہی میں سے تھے، اور وہ گھر ان مامووں کے حصے میں آئے تھے، تو اب یہ گھر انہی کی ملکیت ہیں۔اگر تقسیم نہیں ہوئے تو ان کی تقسیم واجب ہے۔ماموں نے جو تقسیم کی تھی اس وقت اگر کوئی وارث نابالغ تھا اور اس کا حصہ کم رکھا گیا تھا یا تقسیم میں اس کے ساتھ ناانصافی کی گئی تھی تو اب اس وار ث کو بلوغت کے بعد تقسیم پر اعتراض کا حق ہے۔


فتوی نمبر : 143612200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں