بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسیدوں کی خرید وفروخت


سوال

ایک شخص یو رپ کے کسی پٹرول پمپ پر کا م کر تا ہے، گا ڑی وغیرہ میں پٹرول ڈال کر کسٹمر کو ایک رسید دیتا ہے،  کچھ کسٹمر رسید وہیں پھینک جا تے ہیں،  یہ شخص ان رسیدوں کو جمع کرلیتا ہے۔اور ان رسیدوں کو فروخت کردیتا ہے۔ پو چھنا یہ ہے کہ ان رسیدو ں کو فر وخت کر کے جو رقم ملتی ہے،  اس رقم کا لینا اس شخص کے لیے جا ئز ہے یا نہیں؟  نوٹ: جو لو گ ان رسید وں کو خریدتے ہیں وہ ان رسید وں کو حکومتی اداروں میں پیش کر کے یہ با ور کرا تے ہیں کہ اس ما ہ ہما را اتنا پٹرو ل لگا ہے اور اتنا خر چ ہو اہے، لہٰذا ہما را ٹیکس کم کیا جا ئے۔ توکیا اس صو رت میں ان رسیدو ں کی قیمت شخص مذکور کے لیے جا ئز ہو گی یانہیں؟ 

جواب

جس چیز کو خریدا یا بیچا جارہا ہو شریعت کی نگاہ میں  اس چیز کا مالِ  متقوم ہونا ضروری ہے، مذکورہ صورت میں یہ رسیدیں شرعاً  مال متقوم  نہیں ہیں اور نہ ان کے پیچھے کوئی مالِ متقوم ہے جس کو فروخت کیا جارہا ہو ،  بلکہ یہ  جس شخص  نے  پیٹرول خریدا ہے یہ صرف  اس کا ایک ریکارڈ ہے؛ آگے جو لوگ اس کے ذریعہ سے ٹیکس بچاتے ہیں اس کی وجہ سے اس کو مال متقوم نہیں کہا جاسکتا؛  لہٰذا ان کی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں۔ 

       فتاوی شامی میں ہے:

’’إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح‘‘. (5/ 58،   کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

’’وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجوداً فلاينعقد بيع المعدوم، ...  (ومنها) أن يكون مالاً؛ لأن البيع مبادلة المال بالمال ...‘‘ الخ (5/ 138، 140، کتاب البیوع، فصل شرائط رکن البیع، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے: 

’’وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها‘‘.(4 / 518، کتاب البیوع،  ط؛ سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201323

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں