بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی سے پہلے طلاق کی مختلف صورتیں


سوال

اگر کسی خاتون کو رخصتی سے پہلے ہی  طلاق ہوجائے   تو کیا اسی شخص سے دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب

سوال میں  چند  پہلو  وضاحت طلب ہیں جن سے حکم میں تبدیلی آئے گی۔

1۔۔ اگر کسی عورت کو نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات ) سے پہلے  اس کا شوہر   ایک طلاق دے دے ۔

2۔۔  عورت کو نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات ) سے پہلےاس کا شوہر تین طلاقیں الگ الگ جملوں سے دے دے۔

تو ان دونوں صورتوں میں  صرف  ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی  ہے، اس کے بعد  عورت پر عدت گزارنا لازم نہیں ہے، لہذا طلاق کے بعد وہی شخص دوبارہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو از سر نو  نئے مہر اور گواہوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرسکتا ہے، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

3۔۔عورت کو نکاح کے بعد رخصتی اور خلوتِ صحیحہ (کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات ) سے پہلےاس کا شوہر تین طلاقیں اکٹھی ایک ہی جملہ میں دے دے تو اس سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ، اور وہ عورت  اپنے شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ  حرام ہوجاتی ہے، اس کے بعد  زوجین کا باہم رجوع کرنا یا تجدیدِ نکاح کرنا  جائز نہیں ہے۔

4۔۔ عورت کو نکاح کے بعد، رخصتی سے پہلے  لیکن خلوتِ صحیحہ کے بعد اس کا شوہر  طلاق دے دے تو اس کا حکم عام عورت کی طرح ہوگا جس سے اس کا شوہر ازدواجی تعلق قائم کرچکا ہو، یعنی اس کا شوہر اگر سے تین طلاقیں متفرق دے یا اکٹھی دے بہرصورت تینوں واقع ہوجائیں گے، اور عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔ اور اگر ایسی عورت کو شوہر ایک طلاق دے تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی ، البتہ وہ ایک طلاق،  طلاق بائن ہوگی ، اس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے لیے تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہوگی۔اور مذکورہ عورت پر عدت بھی لازم ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ)"(3/286، با ب طلاق غیر المدخول بھا، ط؛ سعید)

وفیہ ایضاً: 

"(قوله: وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ) في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل: لا اهـ وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة، فقد قيل: لا يقع، وقيل: يقع، وهو أقرب إلى الصواب؛ لأن الأحكام لما اختلفت يجب القول بالوقوع احتياطاً، ثم هذا الطلاق يكون رجعياً أو بائناً ذكر شيخ الإسلام أنه يكون بائناً اهـ ومثله في الوهبانية وشرحها.

والحاصل: أنه إذا خلا بها خلوةً صحيحةً ثم طلقها طلقةً واحدةً فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقةً أخرى فمقتضى كونها مطلقةً قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارةً تكون كالوطء وتارةً لا تكون، جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطاً؛ لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدةً بخلاف هذه.

والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائناً هو الاحتياط أيضاً، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضاً؛ لأن الطلاق قبل الدخول غير موجب للعدة؛ لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطاً، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة؛ ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائناً، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح: طلاق بائن آخر، فإنه يفيد أن الأول بائن أيضاً، ويدل عليه ما يأتي قريباً من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول، فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولاً وثانياً وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك.

وأجاب ح: بأن المراد التشبيه من بعض الوجوه وهو أن في كل منهما وقوع طلاق بعد آخر. اهـ. وأما الجواب بأن البائن قد يلحق البائن في الموطوء فلا يدفع المخالفة المذكورة فافهم"۔(3 / 119)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں