بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رجب کی مخصوص عبادات اور 27 رجب کا روزہ کا حکم اورشب معراج کی تاریخ


سوال

 رجب المرجب کی  27 اور 28 تاریخ روزے کی  حقیقت کیا ہے؟ اور معراج کے بارے میں وضاحت درکار ہے۔ اور رجب کے مہینے میں کچھ خاص تسبیحات جو آپ ﷺ سے ثابت ہوں؟

جواب

رجب کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، ان مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہے، البتہ رجب کے مہینہ میں تخصیص کے ساتھ کسی دن روزہ رکھنا یا کوئی مخصوص قسم کی تسبیحات صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے، لہذا 27 رجب کو تخصیص کے ساتھ روزہ رکھنے  اور  اس رات شب بیدار رہ کر مخصوص عبادت کرنے (مثلاً:  صلاۃ الرغائب  یا دیگر مخصوص  تسبیحات وغیرہ )  کا التزام درست نہیں ہے، اور اس کی جو فضیلت عوام میں مشہور ہے کہ اس روزہ کا ثواب ہزار روزے کے برابر ہے یہ ثابت نہیں ہے؛ اس لیے اس دن کے روزہ کو زیادہ ثواب کاباعث یا اس دن کے روزہ کے متعلق سنت ہونے کا اعتقاد  صحیح نہیں ہے ، علماءِ کرام نے اپنی تصانیف میں اس کی بہت تردید کی ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”تبیین العجب بما ورد في فضل رجب“کے نام سے اس موضوع پر مستقل کتاب لکھی ہے،جس میں انہوں نے رجب سے متعلق پائی جانے والی تمام ضعیف اور موضوع روایات پر محدثانہ کلام کرتے ہوئے سب کو باطل کردیا ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ رجب کے مہینے میں ”  تبارک“ اور27 رجب کو روزہ رکھنے کے متعلق فرماتے ہیں:

”اس امر کا التزام نا درست اور بدعت ہے“۔(فتاویٰ رشید یہ مع تا لیفات رشید یہ،ص: 148)

حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ستائیسویں رجب کے روزے کو جوعوام ہزارہ روزہ کہتے ہیں اور ہزارروزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں، اس کی کچھ اصل نہیں ہے‘‘۔(فتاوٰی دار العلوم مد لل و مکمل: 6/491۔ 492)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”ماہ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار دہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ماثبت بالسنتہ“ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضیعف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں“۔(فتاوٰی محمودیہ، 3/281،ادارہ الفاروق کراچی)

حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

”27 رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔“(سات مسا ئل صفحہ:5)

حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور صلی الله علیہ وسلم نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)

لہذا اس مہینے میں تخصیص کے ساتھ کسی عبادت کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے، ہاں تخصیص اور التزام کے بغیر جس قدر ہوسکے اس پورے مہینے میں عبادت کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔

2۔  رجب کی ستائیسویں رات کے بارے میں اگرچہ مشہور ہے کہ یہ شبِ معراج ہے، لیکن یقینی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے، کیوں کہ اس بارے میں روایات مختلف ہیں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب، بعض میں ربیع الثانی، بعض میں رمضان اور بعض میں شوال  کا مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنی میں معراج کی رات تھی، اگر یہ کوئی مخصوص رات ہوتی اور اس کے بارے میں خاص احکام ہوتے تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا، جب کہ شبِ معراج کی تاریخ قطعی طور پرمحفوظ نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں