بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دینی معاملات میں عقل کا استعمال


سوال

کیا ہم دین کے معاملات میں عقل استعمال کرسکتے ہیں؟ اگر کرسکتے ہیں تو کن معاملات میں اور کس حد تک؟

جواب

واضح رہے کہ دینی معاملات اور شرعی احکامات وحی الہی کے تابع ہیں اور وحی کا آغاز ہی وہیں سے ہوتا ہے جہاں جا کر انسانی عقل کی انتہاء ہوجاتی ہے، اس لیئے دینی معاملات میں عقل کا استعمال اور عقل کی پیروی بےعقلی کی دلیل ہے ۔ایک مسلمان کی کامیابی اور سعادت اسی میں ہے کہ خود کو وحی الہی کا تابع بنائے، خواہ وہ اس کی عقل میں آئے یا اس کی عقل سے بالاتر ہو،عقل پرستی کا شکار ہوگا تو دنیا وآخرت دونوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143609200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں