بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دین کی تعریف


سوال

لفظ دین (جیسے دین اسلام ) کی کیا تعریف ہے؟ عربی اور اردو میں؟

جواب

عربی زبان میں لفظِ دین کے چند معنی ہیں جس میں ایک معنی ہے: طریقہ اور روش۔ قرآن کی اصطلاح میں اس  کا معنی یہ ہے کہ  "اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء  کے واسطے سے اپنے بندوں پر اپنی اطاعت کی جو باتیں مقرر فرمائی ہیں؛ تاکہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی رحمت حاصل کریں"، ان سب باتوں کے مجموعہ کو" دین"  کہتے ہیں ۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے: {وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْه} [آلِ عمران:85]

دین کی باتیں دو طرح کی ہیں : 

 (1)      کچھ وہ ہیں جو اصولی ہیں اور کبھی منسوخ نہیں ہوتیں، جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کی معرفت اور دیگر ایمانیات، مثلاً: انبیاء  پر، فرشتوں پر، کتب سماویہ پر‘ قیامت کے دن پر اور تقدیر پر ایمان رکھنا اور یہ ایمان رکھناکہ احکام صرف اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں اور ان کے دیے ہوئے احکام کو بجا لاناہماری ذمہ داری ہے،ان ہی باتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اخلاقِ فاضلہ کو حاصل کیا جائے،  یہ باتیں تمام ادیانِ سماویہ میں مشترک ہیں ، اور قرآن پاک میں فقط ان باتوں کو بھی مجازاً دین کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:  {شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِه نُوحًا وَّالَّذِیْ اَوْحَیْنَآ اِِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِه اِِبْرٰهِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْه} (سورہ شوریٰ: ۱۳)

 یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے جامعِ کمالات اور تمام نقائص سے پاک ہونے اور اس کے سوا کسی کا لائقِ عبادت نہ ہونے پر دل سے ایمان اور زبان سے اقرار، روزِ قیامت اور اس میں حساب کتاب اور جزا وسزا اور جنت و دوزخ پر دل سے ایمان لانا اور زبان سے اقرار کرنا، اس کے بھیجے ہوئے ہر نبی و رسول اور ان کے لائے ہوئے احکام پر اسی طرح ایمان لانا۔

(2)     اور کچھ وہ ہیں جو حسبِ مصلحتِ زمانہ تبدیل ہوتی رہی ہیں اور مختلف رسولوں  کے اَدوار میں ان میں سے بعض منسوخ ہوتی رہی ہیں ،ان کا تعلق عملی اَحکام سے ہے، حضرت موسیٰ علیہ  السلام  کو جو اَحکام دیے گئے ان میں سے بعض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں تبدیل کر دیے گئے، قرآن پاک میں ہے: {وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ}(آل عمران:۵۰)

شریعت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ طریقہ، چوں کہ ہر نبوی کے دور کی شریعت دوسری سے مختلف رہی ہے؛ اس لیے فرمایا: (لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا)  [المائدۃ:48]پھر آخر میں رسول اللہ ﷺ  کو آخری شریعت دی گئی اور چوں کہ آپ کے بعد کوئی اور نئی نبوت نہیں ہے؛ اس لیے آپ کی شریعت غیر متبدل ہے، فرمایا: ((ثُمَّ جَعَلْنَاك عَلیٰ شَرِیْعَة مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْها)) [الجاثیة:18]

ایک اور اصطلاح ملت کی ہے، یہ دین کے ہم معنی ہے، البتہ دونوں میں اتنا فرق ہے کہ دین کی اضافت و نسبت خدا، رسول اور امت ان سب کی طرف ہو سکتی ہے، مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ کا دین، رسولِ خدا ﷺ کا دین اور امت کے ایک فرد، مثلاً زید کا دین، جب کہ ملت کی اضافت و نسبت صرف رسول کی طرف ہو سکتی ہے، خدا کی طرف اور امت کی طرف نہیں ہو سکتی،  قرآنِ پاک میں فرمایا:{مِلَّة اِبْرَاهِيْمَ حَنِیْفًا} [الانعام:161] (مستفاد: مسائل بہشتی زیور) 

التعريفات (ص: 105):
"الدِّين: وضع إلهي يدعو أصحاب العقول إلى قبول ما هو عند رسول الله صلى الله عليه وسلم.
الدِّين والملة: متحدات بالذات، ومختلفان بالاعتبار؛ فإن الشريعة من حيث إنها تطاع تسمى: دينًا، ومن حيث إنها تُجمع تسمى: ملة، ومن حيث إنها يُرجَع إليها تسمى: مذهبًا، وقيل: الفرق بين الدين، والملة، والمذهب: أن الدين منسوب إلى الله تعالى، والملة منسوبة إلى الرسول، والمذهب منسوب إلى المجتهد".

دستور العلماء = جامع العلوم في اصطلاحات الفنون (2/ 83):
"الدّين: بِالْكَسْرِ الْإِسْلَام وَالْعَادَة وَالْجَزَاء والمكافآت وَالْقَضَاء وَالطَّاعَة. وَالدّين الاصطلاحي قانون سماوي سائق لِذَوي الْعُقُول إِلَى الْخيرَات بِالذَّاتِ كالأحكام الشَّرْعِيَّة النَّازِلَة على نَبينَا مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں