بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دگنا بیعانہ واپس کرنے کی شرط


سوال

میں نے آج سے دس سال پہلے ایک جگہ کا سودا کیا، ایک  صاحب  سے  یہ  شرائط  طے  ہوئیں  کہ  اس  سودے کی  میعاد  تین  ماہ ہے ،  اور  اگر  دونوں  میں  سے  کسی  ایک  کی  طرف    سے یہ سودا نہ ہو تو اس کو دوسرے کو دگنا پیسہ ادا کرنا ہوگا۔ اب چوں کہ  ان صاحب کی جانب سے یہ سودا نہیں  ہوسکا تو کیا میں ان سے بیعانہ  سے دوگنا پیسہ وصول کرسکتا ہوں؟ 

اور کیا میں  ان کو بیعانہ ادا کروں یا نہیں؟ اور اس جگہ کا دس سال کا بل جو میں ادا کرتا رہا،  کیا میں اس کی قیمت بیعانہ میں سے منہا کرسکتا ہوں؟ اس لیے کہ بل  میں  ادا  کرتا  رہا  کہ  کہیں  بجلی نہ کاٹ دی جائے؟

جواب

آپ کے اور ان صاحب کے درمیان جو معاہدہ  ہوا،  اس میں اگر آپ نے بیع  کرلی تھی یعنی آپ نے ان کو جگہ بیچ دی تھی اور رقم کی ادائیگی کے لیے تین ماہ کی مدت تھی تو یہ بیع مکمل ہوگئی تھی، لیکن شرطِ فاسد   کے رکھنے  کی وجہ سے یہ بیع فاسد تھی؛ اس لیے کہ  اس میں  آپ دونوں کا یہ شرط  رکھنا  کہ "جو بیع ختم کرے گا اس کو  دگنا پیسہ واپس کرنا ہوگا"، یہ شرط شرعاً درست نہیں؛ بیعانہ ضبط کرنے یا بیعانہ دوگنا واپس کرنے کی شرط ناجائزہے، حدیث مبارک میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے، چناں چہ مشکاۃ المصابیح میں بحوالہ ''موطا مالک'' ، ''سنن ابی داؤد'' اور ''سنن ابن ماجہ'' منقول ہے:

'' عن عمرو بن شعیب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان. رواه مالك وأبوداؤد وابن ماجه. ''

وفي الهامش: قوله: ''بيع العربان''، وهو أن يشتري السلعة ويعطي البائع درهماً أو أقلّ أو أكثر على أنه إن تمّ البيع حسب من الثمن، وإلا لكان للبائع، ولم يرجعه المشتري، وهو بيع باطل ؛ لمافيه من الشرط والغرر''.

لہٰذا اس بیع کو پہلے ہی ختم کرنا لازم تھا۔اور جب انہوں نے اس پر قبضہ نہیں کیا تو گھر ان کی ملکیت میں نہیں آیا تھا ۔آپ اس بیع کو ختم کرکے کسی اور کو بیچ دیتے یا  ان ہی سے نیا معاہدہ کرلیتے؛ چوں کہ گھر آپ کی ملکیت تھا تو  بلز کی ادائیگی بھی آپ پر لازم تھی، جو آپ ان سے وصول نہیں کرسکتے۔اور بیعانہ کی رقم بھی مکمل واپس لوٹانا لازم ہے۔  آپ چاہیں تو ان ہی سے دوبارہ صحیح معاملہ کرسکتے ہیں۔

في شرح المجلة: ''البیع الفاسد یفید حکماً عند القبض یعني أن المشتري إذا قبض المبیع بإذن البائع صار مالکاً له''.
(شرح المجلة ۲:۳۵۹ المادة: ۳۷۱)
وقال العلامة الحصکفي:

''وإذا قبض المشتري المبیع برضا بائعه صریحاً أو دلالةً بأن قبضه في مجلس العقد بحضرته في البیع الفاسد … ولم ینهه البائع عنه ملکه''. (الدرالمختار مختصراً ۴:۱۳۸،۱۳۹ کتاب البیوع)

الهدایة :

''کل شرط لا یقتضیه العقد وفیه منفعة لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیه وهو من أهل الاستحقاق یفسده''.

وفیه أیضاً:

''ولکل من المتعاقدین فسخه؛ رفعاً للفساد، وهذا قبل القبض ظاهر؛ لأنه لم یفد حکمه، فیکون الفسخ امتناعاً منه، وکذا بعد القبض'' الخ

''عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده أن النبي ﷺ نهی عن بیع وشرط''... الخ (مجمع الزوائد، دارالکتب العلمیة بیروت ۴/ ۸۵، نصب الرأیة ۴/ ۴۳، المعجم الأوسط، دارالفکر ۳/ ۲۱۱، رقم: ۴۳۶۱) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں