بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان کی زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ


سوال

دوکان کی زکاۃ  کس طرح نکالیں طریقہ  کیا ہوگا؟

جواب

دوکان اگر خود کاروبار کرنے کی نیت سے لی ہو یا کرایہ پر اٹھائی ہوئی ہو تو اس کی مالیت پر کوئی زکاۃ لازم نہیں ہوگی، تاہم اگر دوکان کرایہ پر اٹھائی ہوئی ہو تو اگر اس کا  سارا کرایہ سال بھر  استعمال میں آجاتا ہو، کچھ بھی نہ بچتا ہو تو اس کرایہ پر بھی زکاۃ لازم نہیں ہوگی،  البتہ اگرسارا  کرایہ محفوظ رہتا ہو یا کچھ محفوظ رہتا ہو اور مالکِ دوکان پہلے سے صاحب نصاب ہو تو محفوظ کرایہ کو کل مال میں شامل کرکے کل کا ڈھائی فیصد بطور زکاۃ  ادا کرنا مالک پر لازم ہوگا۔  اور اگر پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو، لیکن کرایہ کی رقم اتنی محفوظ ہوجائے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو صاحبِ دوکان نصاب کا مالک بن جائے گا، اور سال گزرنے پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ نیز اگر دوکان آگے فروخت کرنے کی نیت سے لی ہو تو اس صورت میں اس کی ہر سال کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرکے دوکان کی کل مالیت کا ڈھائی فیصد بطور زکوة ادا کرنا  مالک پر لازم ہوگا۔

اور اگر سائل کے سوال کا مقصد دوکان میں موجود تجارتی مال کی زکاۃ ادا کرنے کا طریقہ جاننا ہو تو اس صورت میں اسے چاہیے  کہ دوکان میں موجود تمام مالِ تجارت کی قیمتِ فروخت لگا کر واجب الادا اور واجب الوصول قرض کا حساب کرلے، جو مالیت اس کی ملکیت بن رہی ہو، وہ اور جو نقدی اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں ہو اسے بھی کل میں شامل کرکےکل کا ڈھائی فیصد بطور زکاۃ ادا کردے، اس صورت میں دوکان کی مالیت پر زکاۃ  لازم نہیں ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں