بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دورانِ حج شوہر کے انتقال کی صورت میں عدت کا حکم


سوال

 زوجین حج کرنے گئے اور دورانِ حج شوہر کا انتقال ہوگیا تو اب بیوی کی عدت کا کیا حکم ہے؟ اور روضہ اقدس پے حاضری دے سکتی ہے یا نہیں؟ جواب باحوالہ مطلوب ہے!

جواب

اگر کوئی عورت اپنے محرم کے ساتھ سفرِ حج کے لیے روانہ ہو اور راستے میں اس کے محرم کا انتقال ہو جائے تو اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں:

 اگر یہ حادثہ ایسی جگہ پیش آیا ہے کہ  اس عورت اور مکہ کے درمیان مسافتِ سفر باقی ہو یعنی 48 میل سے زائد کا سفر ہو تو ایسی عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے گھر واپس آ جائے اور سفرِ حج جاری نہ رکھے۔

اگر یہ حادثہ ایسی جگہ پیش آیا کہ مکہ مکرمہ وہاں سے مسافتِ سفر سے کم ہے ، اور اس کا گھر مسافتِ سفر پر واقع ہے ، تو اس کو چاہیے کہ مکہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ، اور اپنے افعالِ حج پورے کر لے۔

اوراگر شوہرکا انتقال مدینہ منورہ میں ہوا تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ خاتون مدینہ منورہ ہی میں اپنی عدت پوری کرے اور حج کو نہ جائے؛ کیوں کہ یہ عدت میں ہے، لیکن اگر خاتون کے لیے مدینہ منورہ میں عدت گزارنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکے اور اتنی مدت تک ٹھہرنے کی قانوناً اجازت نہ ہو تو اس اضطراری صورت میں بدرجہ مجبوری اس کو اپنے قافلے کے ساتھ مکہ مکرمہ جانے اور افعال حج ادا کرنے کی اجازت ہو گی، پھر یہ خاتون ارکانِ حج ادا کرے گی؛ کیوں کہ مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے (جب کہ مکہ مکرمہ مسافتِ سفرسے کم ہو)اس کو ارکانِ حج ادا کرنے کے لیےمکہ مکرمہ جانے کی اجازت ہے تو مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد بدرجہ اولی اجازت ہوگی ، اور حج سے فارغ ہونے کے بعد اس کو  مکہ مکرمہ ہی میں اپنے قیام گاہ پر عدت گزارنی ہو گی ۔ لیکن اگر یہ ناممکن ہو جیسا کہ آج کل  قانوناً اس کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور پورا قافلہ اپنے وقت پر روانہ ہو جا ئے گا  تو اس اضطراری حالت میں بدرجہ مجبوری حج کے بعد اپنے وطن واپس چلی جانے کی گنجائش ہے، پھر وطن جا کر عدت کے بقیہ ایام پورے کرنا لازم ہے۔

واضح رہے کہ جس عورت کو دورانِ عدت افعالِ حج کی اجازت ہے اس کو اس بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت اپنی رہائش گاہ سے باہر نہ نکلے بلکہ عدت کی تمام پابندیوں کا خوب اہتمام کرے، نماز یں بھی رہائش گاہ ہی میں پڑھے،  روضہ اقدس پر حاضری دینا ایک قول کے مطابق واجب ہے؛ اس لیے دورانِ عدت بھی اگر روضہ اقدس پر حاضری دینا چاہے تو  اس قول کے مطابق روضہ اقدس پر حاضری دے سکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 626):

"وزيارة قبره مندوبة، بل قيل: واجبة لمن له سعة.

"(قوله: مندوبة) أي بإجماع المسلمين، كما في اللباب.

(قوله: بل قيل واجبة) ذكره في شرح اللباب، وقال: كما بينته في [الدرة المضيئة في الزيارة المصطفوية] وذكره أيضاً الخير الرملي في حاشية المنح عن ابن حجر وقال: وانتصر له، نعم، عبارة اللباب والفتح  وشرح المختار أنها قريبة من الوجوب لمن له سعة".

بدائع الصنائعمیں ہے :

"وإن کان إلی مکة أقل من مدة سفر وإلی منزلها مدة سفر مضت إلی مکة؛ لأنها لا تحتاج إلی محرم في أقل مدة من سفر". (بدائع ۲/۳۰۱)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں