بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران سفر دو نمازیں اکھٹی پڑھنا


سوال

دورانِ سفر دو نمازوں کو عذر کے ساتھ اور بلا عذر کے اکھٹی پڑھنا کیسا ہے؟ مثلاً:  ظہر اور عصر کی نمازوں کو ظہر کے ٹائم اکھٹی پڑھنا یا مدینہ منورہ سے واپس آتے ہوئے مسجد قبا میں نوافل کے لیے رک گئے اور ساتھ فرض آنے والی فرض نماز بھی پڑھ لی جس کا ٹائم داخل نہیں ہوا تھا تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟ برائے کرم احادیث کی روشنی میں مذکورہ مسئلہ واضح کریں!

جواب

واضح رہے کہ نمازوں کے اوقات قرآن وحدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ،ان میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے،قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے فرمایاہے :
﴿اِنَّ الصَّلوٰةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا ﴾ (النساء:۱۰۳)
ترجمہ: ’’بے شک نماز مسلمانوں پروقتِ مقررہ کے ساتھ فرض ہے‘‘۔
ہرنماز  کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے  اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجرہو،یاظہرہو،یاعصر ہو،یامغرب ہو،یاعشاء ہو ،یا جمعہ ہو۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود﷜ فرماتے ہیں:
’’مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰى صَلَاةً بِغَيْرِ (لِغَيْرِ) مِيْقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيْقَاتِهَا.‘‘(صحیح البخاري، باب من یصلي الفجر بجمع:۱۶۸۲)

’’میں نے نبی کریم﷑ کونہیں دیکھا کہ آپ نے کوئی نماز اس کے وقت کے علاوہ میں پڑھی ہو، مگر دو نمازیں یعنی مغرب اور عشاء (مزدلفہ میں )آپ نے جمع فرمائیں ‘‘۔

اس روایت میں آپ ﷺ کے فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے کا بھی ذکر ہے، امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت درج ذیل الفاظ میں فرمائی ہے:

'' المراد بقوله: قبل ميقاتها: هو قبل وقتها المعتاد، لاقبل طلوع الفجر؛ لأن ذلك ليس بجائز بإجماع المسلمين''۔ (حاشیة صحیح البخاري، رقم الحاشية: 7، جلد 1 ص:228 ط:هنديه)

یعنی فجر کی نماز وقت سے پہلے ادا کرنے سے مراد یہ ہے کہ عموماً فجر کی نماز جس وقت (آخرِ وقت) ادا کرنے کا معمول تھا، اس وقت سے پہلے (ابتدائی) وقت میں فجر کی نماز ادا فرمائی، نہ کہ طلوع فجر (وقت داخل ہونے) سے پہلے ادا فرمائی ؛ کیوں کہ طلوعِ فجر سے پہلے فجر کی نماز ادا کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع سے ناجائز ہے۔

مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرنے کے علاوہ عرفہ میں ظہر اور عصر کی نماز جمع کرنا آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، اس کے علاوہ کسی موقع پر نماز کو وقت داخل ہونے سے پہلے ادا کرنا یا بغیر عذر کے وقت گزرنے کے بعد ادا کرنا ثابت نہیں ہے۔

نیزخلفائے راشدین حضرت ابوبکر صدیق﷜ ،حضرت عمر﷜ ،حضرت عثمان﷜ اور حضرت علی﷜ کا عمل بھی یہی تھا،اور اسی پر مواظبت کے ساتھ وہ عمل پیرا تھے۔
اور پھراوقات کا مسئلہ ایسا ہے کہ کبھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی،شریعت کے بہت سے احکام منسوخ ہیں،ابتدا میں حکم کچھ اور تھا، بعد میں اللہ پاک نے اس حکم کومنسوخ کردیا،اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل فرمایا،لیکن اوقات میں کبھی تبدیلی نہیں کی گئی،کبھی اس میں تقدیم و تاخیر نہیں کی گئی۔ان آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریفہ سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ نمازوں کو ان کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنا ضروری ہے، اور ان میں تقدیم و تاخیر جائز نہیں ہے۔

حضرت ابن عباس﷠سے روایت ہے:
’’مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَتٰى بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْكَبَائِرِ.‘‘(سنن الترمذي، باب ماجاء في الجمع بین الصلاتین في الحضر:۱۸۸)
ترجمہ: جس آدمی نے بغیر عذر کے دو نمازوں کو (ایک ہی وقت میں )جمع کیا(پڑھا) وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر پہنچ چکا۔
اس حدیث میں نبی﷑ نے دو نمازوں کو ایک ہی وقت میں پڑھنے کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے،ظاہر ہے کہ جو عمل گناہِ کبیرہ ہو وہ کیسے جائز ہوسکتا ہے۔

دوسری روایت میں حضرت عمر﷜ کا فرمان ہے،جس کی بنیاد بھی خود حدیثِ مبارکہ ہے،جس میں انہوں نے شاہی فرمان کے طور پر یہ شرعی حکم جاری فرمایاتھا، اور گورنروں اور امراء کو یہ خط لکھاتھا کہ
’’يَنْهَاهُمْ أنْ يَّجْمَعُوْا بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ وَيُخْبِرُهُمْ اَنَّ الْجَمْعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِيْ وَقْتٍ وَّاحِدٍ كَبِيْرَةٌ مِّنَ الْكَبَائِرِ . أَخْبَرَنَا بِذٰلِكَ الثِّقَاتُ‘‘۔ (موطأ محمد، باب الجمع بین الصلاتین في السفر:۲۰۵)
کہ امراء لوگوں کو جمع بین الصلاتین سے روکیں،اور ان کو بتا دیں کہ جمع بین الصلاتین ایک ہی وقت میں کبیرہ گناہ ہے۔اس روایت کو ثقہ روایوں نے ہم سے بیان کیاہے۔
اگر اس کی اجازت ہوتی تو  حضرت عمر﷜ ہرگز نہ روکتے، اور اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے اجازت شدہ عمل کو ختم نہ فرماتے۔ معلوم ہواکہ جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔

اب رہیں وہ احادیث جن میں سفر یا کسی اور عذر کی بنا پر دونمازوں کو جمع کرنے کا ذکر ہے تو اس کے دو جواب ہیں:

ایک جواب یہ ہے کہ جن روایات میں صراحتاً وقت سے پہلے یا وقت کے بعد نماز ادا کرنے کا ذکر ہے، وہ قرآن مجید اور ان احادیث سے متعارض ہیں جن میں نمازوں کے اوقات مقرر کیے گئے ہیں، کیوں کہ قرآن مجیدمیں نماز کو اس کے وقتِ مقررہ پر ادا کرنے کا حکم دیا گیاہے،اور اس حدیث میں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے،اور ظاہر ہے کہ قرآن اور حدیث میں ٹکراؤ ہوتو قرآن کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز دیگر احادیث جو نمازوں کو اوقات کے علاوہ اد اکرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں ان سے بھی ٹکراؤ کی صورت میں ان کثیر وصحیح روایات کو ترجیح دی جائے گی، اس لیے ظہر اور عصرکی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اور مغرب وعشاء کی نماز کا جو وقت مقرر ہے، اسی پر عمل کیاجائے گا،اور نمازیں اسی وقت میں ادا کرنا ضروری ہوگا،اوردونمازوں کو جمع کرنے والی روایات کو ترک کردیا جائے گا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ان روایات میں جمع کرنے سے صورتاً جمع کرنا مراد ہے حقیقتاً نہیں،اس کی وضاحت یہ ہے کہ ظہر کی نمازاتنی دیر سے پڑھی جائے کہ اس کاوقت ختم ہونے لگے، جیسے ہی ظہر کی نماز سے فراغت ہو،کچھ دیر انتظار کیا جائے،پھرجب عصر کا وقت شروع ہوجائے تو عصر بھی پڑھ لی جائے،اسی طرح مغرب اور عشاء میں کیا جائے،اس صورت میں ظہر اپنے وقت میں پڑھی جائے گی،اور عصر اپنے وقت میں پڑھی جائےگی۔ لیکن بظاہر ایسا محسوس ہوگا کہ دونوں ایک ہی ساتھ پڑھی گئیں۔ آپ﷑ نے دونمازوں کو اس طرح جمع فرمایا تو راویوں نے کہہ دیا کہ آپ نے دونمازوں کو جمع فرمایاہے، جب کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہی تھی،جیساکہ تفصیلی روایات میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔
چنانچہ عبد اللہ ابن عمر﷠ فرماتے ہیں:
’’رَاَيْتُ رَسُوْلَ الله ﷺ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ حَتّٰى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ.‘‘(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين فى السفر:۱۶۵۹)
’’میں نے رسول اللہ﷑ کودیکھا کہ جب آپ کو سفر پر جانے میں عجلت ہوتی تو مغرب کی نماز کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاء کو جمع فرماتے۔‘‘
حضرت انس﷜ فرماتے ہیں :
’’كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيْلَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلٰى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ.‘‘(صحیح مسلم، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر،۱۶۵۹)
رسول اللہ﷑ جب سورج کے زائل ہونے سے قبل سفر فرماتے تو ظہر کو مؤخرفرماتے عصر تک، پھر (سواری سے) اترتے،اور دونوں نمازوں کو جمع فرماتے۔

ان روایات سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع فرمانا صورتاً تھا حقیقتاً نہیں، جس کی وضاحت  ماقبل میں کی جاچکی ہے، چناں چہ اگر ہم ان روایات کو جمع صوری پر محمول کرتے ہیں تو تمام آیات اور روایات میں کوئی تعارض نہیں ہوتا ہے،اور اگر حقیقت پر محمول کرتے ہیں تو پھر آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو ترک کرنا لازم آتا ہے،اس لئے اس کو جمع صوری پر محمول کیا جائے گا۔تاکہ قرآن اور حدیث پر مکمل طور پر عمل ہو،اور ان میں باہم تضاداورٹکراؤ نہ ہو۔

خلاصہ یہ ہوا کہ حج کے موقع پر عرفات میں ظہر  و عصر اور  مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا تو جائز ہے، اس کے علاوہ سفر ہو یا حضر کسی بھی وقت کہیں بھی بلاعذر یا کسی بھی عذر کی بنا پر دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا جائز نہیں ہے، دو نمازیں ایک وقت میں پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی گئی تو وہ نماز ہوگی ہی نہیں، اور اگر کسی نماز کو اپنے وقت کے بعد پڑھا تو نماز تو بطور قضا ہو جائے گی، لیکن نماز کو اپنے وقت سے مؤخر کر کے پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، البتہ شدتِ مرض کا عذر ہو  یا آنکھ نہ کھل سکے جس کی وجہ سے نماز قضا ہوجائے تو اس کا حکم جدا ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 381)

'' (ولا جمع بين فرضين في وقت بعذر) سفر ومطر خلافاً للشافعي، وما رواه محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً (فإن جمع فسد لو قدم) الفرض على وقته (وحرم لو عكس) أي أخره عنه (وإن صح) بطريق القضاء (إلا لحاج بعرفة ومزدلفة)۔

 (قوله: وما رواه) أي من الأحاديث الدالة على التأخير كحديث أنس «أنه صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما، ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء»۔ وعن ابن مسعود مثله''.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 382)

'' ومن الأحاديث الدالة على التقديم وليس فيها صريح سوى حديث أبي الطفيل عن معاذ «أنه عليه الصلاة والسلام كان في غزوة تبوك إذا ارتحل قبل زيغ الشمس أخر الظهر إلى العصر فيصليهما جميعاً، وإذا ارتحل قبل زيغ الشمس صلى الظهر والعصر ثم سار، وكان إذا ارتحل قبل المغرب أخر المغرب حتى يصليها مع العشاء، وإذا ارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصلاها مع المغرب» .

(قوله: محمول إلخ) أي ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلاً لا وقتاً: أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقتها، ويحمل تصريح الراوي بخروج وقت الأولى على التجوز كقوله تعالى :﴿ فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ ﴾ [البقرة: 234] أي قاربن بلوغ الأجل أو على أنه ظن، ويدل على هذا التأويل ما صح عن ابن عمر: « أنه نزل في آخر الشفق فصلى المغرب ثم أقام العشاء وقد توارى الشفق، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا عجل به السير صنع هكذا.» " وفي رواية ": ثم انتظر حتى غاب الشفق وصلى العشاء "، كيف وقد قال صلى الله عليه وسلم: «ليس في النوم تفريط، إنما التفريط في اليقظة، بأن تؤخر صلاة إلى وقت الأخرى». رواه مسلم، وهذا قاله وهو في السفر. وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس «أنه صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة من غير خوف ولا مطر، لئلا تحرج أمته». وفي رواية: «ولا سفر». والشافعي لا يرى الجمع بلا عذر، فما كان جوابه عن هذا الحديث فهو جوابنا. وأما حديث أبي الطفيل الدال على التقديم فقال الترمذي فيه: إنه غريب، وقال الحاكم: إنه موضوع، وقال أبو داود: ليس في تقديم الوقت حديث قائم، وقد أنكرت عائشة على من يقول بالجمع في وقت واحد. وفي الصحيحين عن ابن مسعود : « والذي لا إله غيره ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة قط إلا لوقتها إلا صلاتين جمع بين الظهر والعصر بعرفة، وبين المغرب والعشاء بجمع». " ويكفي في ذلك النصوص الواردة بتعيين الأوقات من الآيات والأخبار، وتمام ذلك في المطولات، كالزيلعي وشرح المنية. وقال سلطان العارفين سيدي محيي الدين نفعنا الله به: والذي أذهب إليه أنه لا يجوز الجمع في غير عرفة ومزدلفة؛ لأن أوقات الصلاة قد ثبتت بلا خلاف، ولا يجوز إخراج صلاة عن وقتها إلا بنص غير محتمل؛ إذ لاينبغي أن يخرج عن أمر ثابت بأمر محتمل، هذا لا يقول به من شم رائحة العلم، وكل حديث ورد في ذلك فمحتمل أنه يتكلم فيه مع احتمال أنه صحيح، لكنه ليس بنص اهـكذا نقله عنه سيدي عبد الوهاب الشعراني في كتابه الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200882

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں