بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دن کے وقت سرمہ لگانا


سوال

کیا دن کے اوقات میں سرمہ لگانا مکروہ ہے؟ اور کیا جمعہ کے لیے سرمہ لگانا مسنون ہے؟

جواب

1۔۔ سرمہ لگانا مستحب ہے، آپ ﷺ نے اس کی ترغیب دی ہے، اور بالخصوص آپ ﷺ کا عمل  رات میں سونے سے پہلے سُرمہ لگانے کا تھا، اس لیے رات میں سرمہ لگانے کا عمل سنت ہے، نیز اس میں افادیت بھی ہے، بینائی کو طاقت ملتی ہے، اور امراضِ چشم سے حفاظت رہتی ہے، اور دن کے اوقات میں بھی روزہ کی حالت میں سرمہ لگانے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، اس لیے دن کے اوقات میں سرمہ لگانے میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر کوئی مرد دن میں سُرمہ لگاتا ہے،اور  اس میں (سرمے کے فطری رنگ کے علاوہ ) رنگ نہیں ہے   تب تو  کراہت نہیں ہے، اور اگر سیاہ ہے  اور اس سے زینت مقصود نہیں ہے،بلکہ فائدہ مقصود ہے  تو  بھی مکروہ بھی نہیں۔ ہاں! اگر مرد  سیاہ سرمہ زینت کے لیے دن کے وقت لگائے تو یہ مکروہ ہے۔ خواتین کے لیے یہ حکم نہیں ہے، خواتین میں زینت مقصود ہے؛ لہٰذا وہ دن کے وقت سیاہ رنگ والا سرمہ زینت کے ارادے سے بلاکراہت لگاسکتی ہیں۔

بہتر یہ ہے کہ مرد کو دن میں سرمہ لگانا ہو تو اثمد سرمہ استعمال کرے، حدیثِ مبارک میں اس کی فضیلت بھی ہے، آنکھوں اور بینائی کے لیے مفید بھی ہے اور اس میں اضافی رنگ نہ ہونے کی وجہ سے کراہت بھی نہیں ہے۔

2۔۔ جمعہ کے دن خصوصیت سے سرمہ لگانا ثابت نہیں ہے، اس کا حکم بھی وہی ہے جو دن میں سرمہ لگانے کا ہے۔

مسند أحمد (5 / 343):
"عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘.
مصنف ابن أبي شيبة – (ج 8 / ص 411):
"26149- حدثنا عيسى بن يونس ، عن عبد الحميد بن جعفر ، عن عمران بن أبي أنس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل بالإثمد ، يكتحل اليمنى ثلاثة مراود واليسرى مرودين.
26150- حدثنا يزيد بن هارون ، عن عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل منها ثلاثة في كل عين".
جامع الترمذي (رقم الحدیث:2048):
"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي، وخير ما اكتحلتم به الإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر. وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 417):
"(لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة".

الفتاوى الهندية (1/ 199):
"ولايكره كحل، ولا دهن شارب كذا في الكنز. هذا إذا لم يقصد الزينة فإن قصدها كره كذا في النهر الفائق، ولا فرق بين أن يكون مفطراً أو صائماً كذا في التبيين".

الفتاوى الهندية (5/ 359):
"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں