بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعائے تراویح میں ''العظمۃ'' کے تلفظ کی تحقیق


سوال

تراویح کی دعا میں جو ’’سبحان ذی العزۃ و العظمۃ‘‘ ہے، اس کے اعراب کی وضاحت فرمائیں، کیوں کہ بعض لوگ ’’ظ‘‘ کے سکون کے ساتھ پڑھتے ہیں اور بعض فتحہ کے ساتھ صحیح کیا ہے؟

جواب

عربی زبان میں  لفظ ( العَظَمَة)  ظاء پر زبر کے ساتھ ہو ،تواس  کا معنی ہے : بزرگی ، بڑائی، شان وشوکت، تو  (ذِي الْعِزَّةِ وَالْعَظَمَة)کا معنی ہوا : عزت اور کبریائی والا ۔ جب کہ جزم کے ساتھ  ( العَظْمَة ) کے معنی ہیں: ہڈی کا ٹکڑا، تو معنی بنے گا: ہڈی والا، اور  یقیناً یہ معنی اللہ تعالی کے حق میں بولنا بہت غلط ہے ۔ 

لیکن صرف لغت ومعنی کا سہارا لے کر یہ کہنا کہ تسبیح تراویح میں لفظ « العظْمة» میں "ظ" کو ساکن پڑھنا  بالکلیہ ممنوع ہے تو یہ بات درست نہیں، قواعدِ لغت کی رو سے دوسرا تلفظ  یعنی ’’ظ‘‘  کے سکون کے ساتھ لفظ "العظْمة"  کی ادائیگی بھی پہلے معنی میں کی جاسکتی ہے، اور اس صورت میں لفظ "العظمة"  کو ظ کی حرکت اور سکون دونوں طرح پڑھنے کی گنجائش ہوگی۔

 قاعدہ یہ ہے کہ لفظ  (العظمة) میں عین ظاء میم تینوں حروف پر حرکت ہے، اور ملاکر پڑھنے میں گول تاء پر چوتھی حرکت آئے گی، عربی میں اس کو (تَوَالی حَرَکات ) کہا جاتا ہے  ۔ اور عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ: جس لفظ میں تین یا اس سے زائد حروف لگاتار متحرک ہوں، تو اس لفظ میں دوسرے حرف پر تخفیفاً جزم لگاکر پڑھنا جائز ہے۔ یہ قاعدہ  «النحو الوافي» جلد ۱، مسئلہ ۱۶، صفحہ ۱۹۹ پر لکھا ہے ، اور اس طرح کے جزم کو (سکون تخفیف ) کا نام دیا ہے ۔  کتبِ تفسیر وقراءات میں سورہ بقرہ کی آیت ۵۴ میں لفظ (بَارِئِکُمْ) کی ذیل میں، جہاں امام ابو عمرو بصری کی قراءت (بسکون الہمز) ذکر کی جاتی ہے ، وہاں امام نحو ابو علی فارسی کی یہ بات مذکور ہے : "قَالَ أَبُو عَلِی: وَأَمَّا حرکة  الْبِنَاءِ فَلَمْ یخْتَلِفِ النُّحَاة فِی جَوَازِ تَسْکینِها مَعَ تَوَالِی الْحَرَکاتِ". اور یہاں پر (العَظَمة) کی ظاء پر بھی جو حرکت ہے وہ حرکتِ بناء ہے ۔دوسری بات یہ کہ عموماً عربی زبان میں حرکات کو تلفظ میں ثقل ( بھاری پن ) کا باعث سمجھا جاتا ہے، اسی لیے  توالی حرکات کے وقت اہلِ عرب لفظ میں تخفیف پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، جیسے: ادغام، حذف، ابدال، اختلاس، جزم۔ جو شخص قواعد صرف اور علم قراءات سے واقف ہوگا ، اس کو معلوم ہوگا کہ لفظ کے ثقل کو دور کرنے کے لیے عربی زبان میں یہ سب طریقے بے شمار الفاظ میں رائج ہیں ، اور ان سے لفظ کا اصل معنی نہیں بدلتا ، اور نہ دوسرا معنی متکلم کے یہاں مراد ہوتا ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ: عوام الناس جو  (العظمة)  کی ظاء پر جزم لگاتے ہیں وہ اردو کے تلفظ سے متاثر ہونے کی وجہ سے کرتے ہیں ، اور سہولت کی بنا پر بھی ۔اور اس طرح سے کرنا عربی زبان کے قواعد کے اعتبار سے درست ہے ، اس سے فاسد معنی نمودار نہیں ہوتا ہے ، اور نہ وہ مقصود ہوتا ہے ۔ اس لیے جو حضرات ان باتوں سے نا واقفیت کی بنا پر عوام الناس کے بارے میں شدت اختیار کرتے ہیں ، ان کا رویہ درست نہیں ہے ، ہاں بہتر یہ ہے کہ اس لفظ کو زبر کی حرکت کے ساتھ بولا جائے ، جیساکہ اس کا اصل تلفظ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201366

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں