بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعا میں توسل کا شرعی حکم


سوال

میں نے اپنے مفتی صاحب سے توسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ توسل کی دعا صحاہ کرام سے ثابت نہیں، لیکن جب میں نے المهند علی المفند، دار العلوم دیوبند اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا حوالہ دیا تو مفتی صاحب خاموش ھو گئے۔میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ آپ کا نظریہ پنچ پیر جماعت سے ملتا ہے، انھوں نے کہا کہ میں بھی نقشبندیہ میں بیعت ہوں اور توسل کے ذریعہ زیادہ تر تصوف سے وابستہ حضرات دعا مانگتے ہیں۔ اب آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ 1) جناب عالی اگر کوئی پیغبرﷺکے توسل سے دعا مانگے اور اولیاء کے توسل نہ مانگے 2) اگر کوئی دونوں کا انکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ہمارے علاقے میں آج کل اھل حدیث اور پنج پیر جماعت کے لوگ کام کر رہیں ہیں اور وہ یہ مسئلہ پیش کرتے ہیں کہ توسلِ پیغمبر و اولیا جائز نہیں. آپ حضرات شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں.

جواب

توسل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: 1) توسل بالاعمال یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی) 2) توسل بالذوات یعنی کسی نبی، صحابی یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکوۃ : 2 / 447 قدیمی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر) البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے، اور ان کی قبر پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی علما کے نزدیک مختلف فیہا مسئلہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا لازم ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے. واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143708200051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں