ہمارا ایک انگور کا باغ ہے، جس کو ہم نے ٹھیکیدار کو اس سال ٹھیکے پر دیا۔ اس حال میں کہ انگور کی بیلوں پر انگور ابھی تک اگے نہیں تھے۔ صرف چھوٹی چھوٹی کلیاں تھیں۔ ٹھیکیدار نے چار پانچ مہینے اس باغ پر محنت کی۔ گویا یہ پانچ مہینے اس باغ پر ٹھیکیدار کی ملکیت تھی۔ تو اب پوچھنا یہ ہے کہ اس باغ کی زکات اس سال کس پر آئے گی؟ ٹھیکیدار پر یا پھر ہم پر؟
واضح رہے کہ زمینی پیداوار مثلاً انگور وغیرہ پر عشر لازم ہوتا ہے ، زکات نہیں۔
باقی صورتِ مسئولہ میں ابھی انگوروں کی کلیاں تھیں کہ ان کی بیع کر دی گئی ہے تو یہ بیع شرعاً درست ہی نہیں ہوئی، اس لیے کہ درخت پر پھلوں کی بیع کے لیے ضروری ہے کہ وہ پھل ظاہر ہو چکے ہوں۔لہٰذا آپ کوچاہیے کہ آپ اس بیع کو ختم کر کے ازسرِ نو بیع کریں، اور بیع کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں، اول یہ کہ انگور اگنے کے بعد اور پکنے سے پہلےبیع کر دی جائے، دوسری یہ کہ انگور پکنے کے بعد بیع کر دی جائے، اول صورت (انگور اگنے کے بعد اور پکنے سے پہلےبیع کر دینے )میں عشر خریدنے والے پر لازم ہو گا اور بائع پر ان پھلوں سے حاصل شدہ قیمت پر اپنی شرائط کے ساتھ زکات لازم ہوگی، اور دوسری صورت (انگور پکنے کے بعد بیع کر دینے) میں عشر بائع پر لازم ہوگا۔
درِمختار میں ہے:
"(ومن باع ثمرة بارزة) أما قبل الظهور فلایصح اتفاقاً".
وفي الرد: "(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعني الظهور والمراد به انفراك الزهر عنها و انعقادها ثمرة و إن صغرت". (كتاب البيوع ، فصل في ما يدخل في البيع تبعاً و مالايدخل، 4/ 555 ط:سعيد)
درِ مختار میں ہے:
"ولوباع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري و لو بعده فعلى البائع". (كتاب الزكاة، باب العشر، 2/333 ط:سعيد) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200738
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن