بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بے پردہ عورت اور داڑھی منڈے کا حج کرنا


سوال

بے پردہ عورت اور داڑھی کٹوانے والے مردکا حج اور عمرہ پر جانا کیسا ہے؟ اور ان کا یہ عمل حج اور عمرہ کے بعد بھی تبدیل نہ ہو ؟

جواب

عورت کا بے پردہ ہونا اور مرد کا داڑھی شرعی حد سے کم کرنا گناہ ہے اور حج ادا کرنا عبادت اور اسلام کا اہم رکن ہے، اللہ تعالیٰ سے امید رکھی جائے کہ بے پردہ عورت یا داڑھی کٹوانے والا مرد حلال مال سے حج کے فرائض و واجبات اور سنن ومستحبات کی رعایت رکھتے ہوئے حج کریں گے تو ان شاء اللہ انہیں اجر بھی ملے گا اور اس عمل کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انہیں سچی توبہ کی توفیق بھی عطا فرمائیں گے۔ البتہ جب تک بے حجابی اور داڑھی کتروانے سے سچی توبہ نہ کریں ان کا گناہ اپنی جگہ رہے گا۔

بے پردہ عورت کو پردہ کرنا چاہیے، اور داڑھی کاٹنے والے مرد کو داڑھی سنت کے مطابق رکھنی چاہیے، ایسے لوگوں کو نیک عمل پر لانے کے لیے حکمت و بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، نرمی سے دینی احکام سمجھائے جائیں اور دردِ دل سے ان کے لیے دعائیں کریں۔  نیز ہر شخص کو اپنے عمل کی فکر کرنی چاہیے کہ اس کا عمل مقبول ہوگا یا نہیں؟ دوسروں کو نشانہ بنا کر سوال کرنا اور پھر انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرنا اللہ جل شانہ اور رسول اللہ ﷺ کے ہاں ہرگز پسندیدہ نہیں ہے۔ممکن ہے آج نہیں تو کل انہیں توبہ کی توفیق ہوجائے اور وہ اعمال پر آجائیں اور کوئی شخص انہیں حقیر اور معمولی سمجھتے سمجھتے خود اللہ کی پکڑ کا شکار ہوجائے۔ اگر حج سے واپس آنے کے بعد بھی کوئی گناہ سے باز نہ آئے تو اسے بھی حکمت وبصیرت اور نرمی سے ہی اسلامی احکام واعمال کی دعوت کا حکم ہے، نہ کہ طنز وطعنہ کے اسلوب پر۔

بہرحال داڑھی منڈانا یاایک مشت سے کم کروانا اور پردے کا اہتمام نہ کرنا دونوں گناہ کبیرہ ہیں، جومرد اور خواتین ان گناہوں میں مبتلا ہوں، حج کرنے سے ان کا فریضہ تو ادا ہوجائے گا،لیکن کامل ثواب کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ حج و عمرہ  کے لیے تشریف لے جاتے وقت اللہ جل شانہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے اپنی شکل و صورت اور سیرت کو ان کی چاہت اور حکم کے مطابق کریں اور  تمام گناہوں  سے سچی توبہ کریں، اورحج کے سفر سے واپسی کے بعد بھی  آئندہ ہمیشہ کے لیے حرام  کاموں سے بچنے کا عزم کریں؛ تاکہ ان کا حج اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201918

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں