بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دانتوں میں پھنسے کھانے کا حکم


سوال

یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ دانتوں میں کھانے کا کوئی ٹکڑا وغیرہ پھنس جاۓ تو اگر اس کو زبان کی مدد سے ہی نکال لیا تو اس کو نگلنا جائز ہے. اور اگر انگلی کے ذریعے یا کسی تیلی وغیرہ کے ذریعے نکالا تو اس کو دوبارہ کھانا یا نگلنا جائز نہیں، اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے تو وضاحت فرما دیں! اور یہ بھی بتا دیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو اس کے مطابق عمل نہ کرنے والے کو گناہ ہو گا یا نہیں؟  نیز اس حکم کا درجہ کیا ہے؟

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہیے، اور خلال کے ذریعے جو چیز نکلے اسے پھینک دے اور جو زبان کے ذریعے نکلے اُسے نگل لینا چاہیے۔

سنن الدارمي ت الغمري (ص: 500):
"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أكل فليتخلل، فما تخلل فليلفظ، وما لاك بلسانه فليبتلع".

اس کا مطلب یہ ہے کہ کھانے کے آخری لقمہ کے بعد زبان سے منہ میں لگے کھانے کو نگل لیا جائے اور پھر دانتوں کے درمیان پھنسے ذرّات کو کلی کر کے باہر پھینک دیا جائے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے ایسا کیا تو اچھا کیا اور جس نے ایسا نہیں کیا تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ 

سنن الدارمي ت الغمري (ص: 224):
"من أكل فليتخلل، فما تخلل فليلفظ، وما لاك بلسانه فليبتلع، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج". 

مذکورہ روایت کے الفاظ سے اس کا حکم بھی واضح ہوگیا کہ جو ایسے نہ کرے  تو کوئی حرج نہیں ہے، یعنی وہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ درحقیقت اس حدیث اور حکم کا تعلق آداب سے ہے، اور خلال کے ذریعے نکلنے والے ذرات کو نہ نگلنے کا حکم طبعی کراہت کی وجہ سے بھی ہے کہ منہ سے ذرات باہر نکال کر پھر کھانا طبع سلیم رکھنے والوں کے نزدیک مکروہ سمجھا جاتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں