خون دینا کیسا ہے؟آدمی خون دے سکتا ہے یا نہیں؟ خون دینے میں شرعی کوئی قباحت تو نہیں ہے؟
خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کی بھی کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر فقہاء نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، البتہ اس کی نجاست کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:
(۱)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر داکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔
(۲)جب ماہر داکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔
(۳) جب خون نہ دینے کی صورت میں ماہر داکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو، ا س صورت میں بھی خون دینے کی گنجائش ہے، مگر اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینادرست نہیں ہے۔
(4) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا مقصود ہو، ایسی صورت میں خون دینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وَلَمْ يُبَحْ الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مَوْتِهِ)؛ لِأَنَّهُ جَزْءُ آدَمِيٍّ، وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ، شَرْحُ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَفِي الْبَحْرِ: لَا يَجُوزُ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ الْمَأْكُولِ، كَمَا مَرَّ. (قَوْلُهُ: وَفِي الْبَحْرِ) عِبَارَتُهُ: وَعَلَى هَذَا أَيْ الْفَرْعِ الْمَذْكُورِ لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ لِلتَّدَاوِي. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَأَهْلُ الطِّبِّ يُثْبِتُونَ لِلَبَنِ الْبِنْتِ أَيْ الَّذِي نَزَلَ بِسَبَبِ بِنْتٍ مُرْضِعَةٍ نَفْعًا لِوَجَعِ الْعَيْنِ. وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِيهِ، قِيلَ: لَا يَجُوزُ، وَقِيلَ: يَجُوزُ إذَا عَلِمَ أَنَّهُ يَزُولُ بِهِ الرَّمَدُ، وَلَا يَخْفَى أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِلْمِ مُتَعَذِّرَةٌ، فَالْمُرَادُ إذَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ وَإِلَّا فَهُوَ مَعْنَى الْمَنْعِ اهـ. وَلَا يَخْفَى أَنَّ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ لَا يَجُوزُ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ فَإِنَّهُ لَا يُشْرَبُ أَصْلًا. اهـ. (قَوْلُهُ: بِالْمُحَرَّمِ) أَيْ الْمُحَرَّمُ اسْتِعْمَالُهُ طَاهِرًا كَانَ أَوْ نَجَسًا ح (قَوْلُهُ: كَمَا مَرَّ) أَيْ قُبَيْلَ فَصْلِ الْبِئْرِ حَيْثُ قَالَ: فَرْعٌ اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ. وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ كَمَا فِي إرْضَاعٍ الْبَحْرِ، لَكِنْ نَقَلَ الْمُصَنِّفُ ثَمَّةَ وَهُنَا عَنْ الْحَاوِي: وَقِيلَ يُرَخَّصُ إذَا عَلِمَ فِيهِ الشِّفَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ كَمَا خُصَّ الْخَمْرُ لِلْعَطْشَانِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. اهـ". (3 / 211، باب الرضاع، ط:سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200053
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن