بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

خون بیچنے کا حکم


سوال

آج کل خون بیچا جارہا ہے کیا اس کو بیچنا جائز ہے؟اس کی کوئی جائز صورت ہے؟

جواب

خون فروخت کرنا جائز نہیں؛ کیوں کہ خون نجس ہے اور شرعاً مال نہیں ہے، جو چیز مال ہی نہ ہو اس کے بیچنے کی  کوئی جائز صورت  نہیں ۔

" عن أبي حجيفة أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عن ثمن الدم وثمن الكلب وكسب البغي ولعن آكل الربا وموكله والواشمة والمستوشمة والمصور . رواه البخاري".
ترجمہ: حضرت ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت، اور بدکار عورت کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے استعمال سے منع فرمایا ہے،  نیز آپ نے سود لینے والے اور سود دینے والے گودنے والے اور گودوانے والے اور مصور (تصویر بنانے والے) پر لعنت فرمائی ہے۔

لہٰذا خون بیچنا جائز نہیں ہے، اگر مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو ، خون کی منتقلی کے بغیر مریض کی جان کو خطرہ ہو، صحت کی امید نہ ہو یا بیماری بڑھنے یا صحت یابی میں بہت تاخیر کا اندیشہ ہو اور ماہر دین دار ڈاکٹر کی رائے خون منتقلی کی ہو تو بلاعوض مریض کو خون دینا چاہیے۔ تاہم اگر کسی جگہ کوئی بلامعاوضہ دینے پر تیار نہ ہو اور  خون منتقلی کے بغیر مریض کی جان کو خطرہ ہو تو شدید ضرورت کے وقت خریدنے والے کے لیے گنجائش ہوگی،  لیکن فروخت کرنے والے کے لیے اس صورت میں بھی خون کی قیمت حرام ہی رہے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں