بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبہ جمعہ اور نماز کے درمیان وقفہ کرنا


سوال

خطبہ جمعہ کے متصل بعد امام صاحب کا اعلان وغیرہ کا معمول بنانا کہ جس سے خطبہ ونماز میں وقفہ ہو جاتا ہو شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ کیا ایسا کرنے کی گنجائش ہے؟

جواب

خطبہ جمعہ اور نماز کے درمیان طویل وقفہ خطبہ کو باطل کر دیتا ہے، لیکن اگر وقفہ طویل نہ ہو بلکہ مختصر ہو تو ایسا وقفہ خطبہ کو باطل نہیں کرتا  اور اس سے جمعہ کی نماز پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اگر مذکورہ امام صاحب کے اعلان سے مراد صفوں کی درستی وغیرہ کا اعلان ہے تو یہ نماز کے مکملات میں سے ہے، لہٰذا صفوں کی درستی تک اعلان اور ترغیب کی اجازت ہے، اور یہ فصل بالاجنبی نہیں کہلاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صفوں کی درستی اور ان کی نگرانی کے لیے ایک آدمی مقرر کیا ہوا تھا، جب وہ صفوں کی درستی کی خبر دیتا  تب آپ نماز شروع فرماتے تھے۔ تاہم امام صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ مختصر ترغیب اور اعلان پر اکتفا کریں اور مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ وہ سنت کے مطابق صفوں کی ترتیب جلد از جلد مکمل کرلیا کریں۔

ہاں اگر امام صاحب کے اعلان کرنے سے مراد چندہ وغیرہ یا کسی اور مقصد سے اعلان کرنا ہے تو اس کا معمول بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 151):
"ولو فصل بأجنبي فإن طال بأن رجع لبيته فتغدى أو جامع واغتسل استقبل. خلاصة: أي لزوماً لبطلان الخطبة، سراج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 151):
"(قوله: فإن طال) الظاهر أنه يرجع في الطول إلى نظر المبتلى". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201513

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں