بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خریم نام رکھنے کا حکم


سوال

میں نے اپنے بیٹے کا نام ’’خریم‘‘  رکھا ہے جس کے معنی کسی نے یوں بتائے  ہیں کہ ”خریم“  صیغہ تصغیر ہے جس کے معنی کم کاٹنے والا، کم شگاف ڈالنے والا ہے۔ اب ہمیں اس کا مطلب صحیح نہیں لگ رہا۔ راہ نمائی کر دیں کہ مطلب یہی ہے یا کچھ اور؟  جواب کچھ جلدی دے دیں تو مہربانی ہوگی!

جواب

’’خُرَيْم‘‘ رسول اللہ ﷺ کے صحابی کا نام ہے، نیز مدینہ کے قریب ایک وادی کا نام  بھی خریم ہے،  جو رسول ﷺ کا بدر سے واپسی کا راستہ تھا،  اور صحابہ کے نام پر نام رکھنا باعث برکت ہوتاہے، اگرچہ اس نام کے معنی میں  کوئی ظاہری خوبی معلوم نہ ہوتی ہو، اس میں صحابی رسول کی نسبت ملحوظ ہوتی ہے نہ کہ لفظ کا معنی، لہذا یہ نام رکھنا درست ہے۔ 

لسان العرب (12/ 173):
"وَفِي الْحَدِيثِ ذِكْرُ خُرَيْمٍ، هو مُصَغَّرٌ ثَنِيَّةٌ بَيْنَ الْمَدِينَةِ والرَّوْحاء، كَانَ عَلَيْهَا طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ، صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُنْصَرَفَهُ مِنْ بَدْرٍ. ومَخْرَمَةُ، بِالْفَتْحِ، ومُخَرَّمٌ وخُرَيْمٌ: أَسماء".

معرفة الصحابة لابن منده (ص: 516):
"خريم بن فاتك الأسدي
وهو ابن أخرم بن شداد بن عمرو بن فاتك، من بني عمرو بن أسد أخو سبرة بن فاتك، شهد بدرًا هو وأخوه، يكنى أبا يحيى، نزل الرقة ومات بها.
له ذكر في حديث وابصة، وأبي هريرة، وسهل بن الحنظلية، وأنس بن مالك. أخبرنا أحمد بن محمد بن زياد، قال: حدثنا أحمد بن عبد الجبار، عن أبي معاوية، ح: وحدثنا محمد بن عمر بن حفص، قال: حدثنا إبراهيم بن عبد الله، قال: حدثنا يعلى بن عبيد، جميعًا عن إسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، قال: أرسل مروان إلى أيمن بن خريم، فقال: ألا تعيننا، فقال: إن أبي وعمي شهدا بدرًا، ثم ذكر الحديث.
أخبرنا محمد بن يعقوب، وأحمد بن محمد بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن أبي طالب، قال: حدثنا عبد الوهاب، قال: حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن شمر بن عطية، عن خريم بن فاتك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي رجل أنت لولا خلقان فيك، قلت: وما هما؟ قال: تسبل إزارك وترخي شعرك، قلت: لا جرم، فجز شعره ورفع إزاره". 
فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144008201160

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں