بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حقوق العباد کی ادائیگی اور حرام مال سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ


سوال

 اگر کوئی شخص اللہ پاک سے صدقِ دل سے اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ نہ کرنے کا ارادہ کر لے۔ حقوق العباد کا کیا کرے؟  اگر کسی سے قرض لیا یا چوری کی یا مال ناحق کھایا جان بوجھ کر یا بھولے سے اور جن کا مال تھا وہ لا پتا ہوں ان کو ڈھونڈنا ناممکن ہو تو ایسی صورت میں کفارہ کیا ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں تو یہ سعادت کی بات ہے، اب اسے چاہیے کہ صدقِ دل سے  گناہوں سے توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے،  گناہ ترک کردے، اور آئندہ کے بارے میں اس طرح نہ کرنے کا عزم کرے، اور اگر کسی کا ناحق مال کھایا ہو تو اس کا مال واپس کرنے کی فکر کرے۔

اگر کسی کا مال ناحق طریقہ سے لیا ہو ، مثلاً چوری، غصب، لوٹ، رشوت ، سود اور جوئے  یا خیانت، دھوکا دہی وغیرہ سے  سے لیا ہو یا کسی سے قرض لیا ہو تو  سب سے پہلے اس کے چھٹکارے  کی صورت یہ ہے کہ جس سے مال حاصل کیا گیا تھا اگر وہ زندہ ہے تو اس کو  ورنہ اس کے ورثاء کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں پہنچایا جائے، اور اگر  ان کو بتانے میں عار محسوس ہوتی ہو تو یہ بھی گنجائش ہے کہ انہیں کسی اور عنوان سے واپس کردیں، مثلاً صاحبِ حق کا حق ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردے ، یا اس کو کوئی چیز واجب الادا حق کے برابر قیمت والی فروخت کرکے بعد میں اس کو کہہ دےکہ آپ کو یہ چیز  ہدیہ میں دی ہے، غرض نیت تو واجب حق ادا کرنے کی ہو لیکن دینے کا عنوان کچھ  بھی ہو تو جائز ہے، اصل مقصد حق دار کو حق پہنچانا ہے۔

لیکن اگراصل مالک بھی معلوم نہ ہوں اور  نہ ہی ان کے ورثاء معلوم ہوں تو ایسی صورت میں ان کے مال کو اصل مالک کی نیت سے صدقہ کردینا واجب ہے، اور صدقہ میں بھی یہ ضروری ہے مستحق لوگوں کودیا جائے۔

باقی اگر ان کے ساتھ  مال کے علاوہ کوئی زیادتی ہوئی ہو تو دنیا میں اس کی معافی تلافی ہوجانی چاہیے، یہ سب سے بہتر ہے، ورنہ اگر معافی کی صورت نہ ہوسکے تو صاحبِ حق کے لیے مغفرت واستغفار اور ایصالِ ثواب کرکے بھی معافی کی صورت بن سکتی ہے۔

اور اگر  حق دار غیر مسلم ہوتو  اس کو بھی مال پہنچانا ضروری ہے،  البتہ اگر حق پہنچانے کی کوئی صورت نہ ہو  ایسی صورت میں غیرمسلموں کے اس مال کا حکم ”مالِ فئی“ کا ہوگا، اس کو حکومت کے کسی ادارہ میں دے دےیا کسی غریب وفقیر کو دے دے، یا رفاہی کاموں میں خرچ کردے۔

نیز واضح رہے کہ اصحابِ حق کے حقوق پہنچانے میں یہ تفصیل تو اس وقت ہے کہ صاحبِ مال کا مال موجود ہو اور اس کو پہنچانا ممکن ہو یا بعینہ اس کا مال یا حق تو  موجود نہ ہو لیکن بدلہ میں قیمت اور ضمان ادا کرنے کی استطاعت موجود ہو، ان دونوں صورتوں میں حق داروں کو ان کا حق پہنچانا ضروری ہے ، لیکن اگر  حق دار کا حق ضائع ہوگیا ہے اور نہ اصل حق موجود ہے اور نہ ہی اتنی استطاعت ہے کہ اربابِ حق کا حق ادا کرسکے، بلکہ اب ناجائز مال لینے والا یا کھانے والا خود فقیر ہوگیا ہے، حق ادا کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو اس صورت میں اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے ، اگر صاحبِ حق زندہ ہے تو اس سے حق معاف کرالے، اگر وہ خود نہیں تو اس کے ورثاء سے معافی مانگ لے، لیکن اگر حق دار یا اس کے ورثاء سے ملاقات ممکن نہ ہو تو اس کے لیے دعاءِ مغفرت اور استغفار کرے، صاحب عذر کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، اور ہر آدمی کے دل کے حال کو بھی خوب دیکھ رہے ہیں، اگر اللہ چاہیں گے تو اس کی نافرمانی کا گناہ معاف کردیں گے اور جس بندہ کا حق تلف کیا ہے اس سےقیامت کے دن معافی کا بندوبست بھی کردیں گے۔(ماخوز از اسلامی معیشت کے بنیادی اصول، از مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200782

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں